خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ کی خواتین اور اِس کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی جس کے مطابق ہر روز 140 خواتین اور لڑکیاں اپنے ساتھی یا قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں۔اِس کا مطلب ہے کہ ہر 10 منٹ میں ایک عورت یا لڑکی کو مار دیا جاتاہے۔ گزشتہ سال (2023ء) میں دنیا بھر میں 85 ہزار خواتین اور لڑکیوں کو ناحق قتل کیا گیا، جس میں سے 51 ہزار یعنی 60 فیصد کو قریبی ساتھی یا خاندان کے فرد نے موت کے گھاٹ اتارا۔ اِس رپورٹ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں لڑکیوں یا خواتین کے لئے معاشرے سے زیادہ غیر محفوظ ان کا اپنا گھر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2023ء میں قریبی ساتھی یا رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کے سب سے زیادہ 21 ہزار 700 واقعات افریقہ میں ہوئے جبکہ آبادی کے لحاظ سے بھی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے متاثرین میں افریقہ پہلے نمبر پر ہے، امریکہ میں یہ شرح ایک لاکھ کے تناسب سے 1.6، ایشیا میں 0.8 جبکہ یورپ میں یہ شرح 0.6 رہی۔ یورپ اور امریکہ میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے، امریکہ میں قتل ہونے والی خواتین میں سے 58 فیصد جبکہ پورے یورپ میں 64 فیصد اپنے جاننے والوں کے ظلم کا شکار ہوئیں۔واضح رہے کہ ہر سال 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور پھر 10دسمبر تک ”صنفی بنیاد پر تشدد۔ایکٹویزم کے سولہ دن“ کے نام سے مہم چلائی جاتی ہے، رواں سال اِس آگاہی مہم کا عنوان ”ہر دس منٹ میں ایک خاتون کا قتل“ ہے اوراِس کا مقصد دنیا کی توجہ خواتین کے خلاف تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم کی طرف مبذول کرانا ہے۔ عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن منانے کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹریامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کر دیا گیا تھا، یہ تینوں بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔پھر17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 25 نومبرکو باقاعدہ طور پرعورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ دنیا بھر میں خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور اُن کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مجموعی اعداد و شمار یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے جبکہ پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر گھریلو تشدد زیادہ کیا جاتا ہے۔دو سال قبل پاکستان میں قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں یعنی 2019ء، 2020ء اور 2021ء کے دوران خواتین پر تشدد کے 63 ہزارسے زائد واقعات رونما ہوئے،اِن میں گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات شامل تھے۔ اِسی عرصے میں خواتین کے ساتھ بداخلاقی کے 11 ہزار سے زائد کیس درج کیے گئے جن میں اجتماعی بداخلاقی کے کیس بھی شامل ہیں،اِس کے علاوہ لگ بھگ چار ہزار خواتین کو جان سے مار دیا گیا اور ایک ہزار سے زائد خواتین ”غیرت“ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ دو سال قبل عالمی اقتصادی فورم کے جاری کردہ انڈیکس کے مطابق بھی پاکستان میں صنفی تفریق کی درجہ بندی میں پاکستان 145ویں نمبر میں تھا،ا ِس فہرست میں کل 146 ممالک شامل تھے اور پاکستان سے نیچے صرف افغانستان تھا۔ المیہ یہ ہے کہ جو اعداد و شمار درج کئے ہیں وہ حتمی نہیں ہیں کیونکہ بہت سے ایسے کیس ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد کے تازہ ترین اعدادوشمار تو سامنے نہیں آئے لیکن پاکستان کی وزارتِ صحت نے چندسال قبل ”پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے“ کرایا تھا، اس کی رو سے 28 فیصد خواتین کو 15 سال کی عمر سے کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
حال ہی میں ایک ساس نے اپنی بہو کا نہ صرف قتل کیا بلکہ اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ساس سگی خالہ بھی تھی۔ اِس سے زیادہ اور خوفناک کیا بات ہو گی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، دن رات ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے روح کانپ جاتی ہے کہ یہ انسان کے روپ میں کیسے حیوان ہیں۔آج بھی ایسے بہت سے حقوق ہیں جو عورت کونہیں دئیے جاتے،بلکہ اگر اِسے کچھ دیا بھی جائے تو اس کا احسان جتایا جاتا ہے۔قوانین موجود ہیں لیکن بہت سی عورتوں کو اِس کے بارے میں علم ہی نہیں ہے اور اگر کوئی خاتون اِس کا استعمال کرتی ہے تو اُس کو بہت سے غیر مہذب القابات سے نوازا جاتا ہے، باغی کہا جاتا ہے۔ افسوس اِس بات کا بھی ہے کہ حقوق کی پامالی کرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی قریبی رشتے دار ہیں،اگر کوئی عورت ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی بھی ہے تو اُسے دبا دیا جاتا ہے۔ خواتین کو رپورٹ کرنے کے لئے ہیلپ لائن کی سہولت دی گئی ہے لیکن وہ اِسے استعمال نہیں کر سکتیں، تھانے کے چکروں سے ڈرتی ہیں اور ظلم و ستم برداشت کرتی رہتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں نور مقدم اور سارا انعام جیسی مثالیں بکھری پڑی ہیں، قانونی معاملات بھی ایسے ہی ہیں بس کہ مارنے والے یا ظلم کرنے والے کو سزا کا ڈر نہیں ہوتا۔ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہر انسان کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے، مرد اور عورت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی ہے، عورت کا اتنا احترام ہے کہ نبی پاک ؐ اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے آنے پر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے تو پھر یہاں عورتوں کے حقوق کو مان لینے میں آخر مسئلہ کیا ہے۔اسلام نے عورتوں کو پہچان دی، زندہ رہنے کا حق دیا اور جو حقوق مذہب نے تفویض کر دیئے ہیں ان کی راہ میں کوئی کیسے حائل ہو سکتا ہے،اس سے کسی کی اَنا کو ٹھیس پہنچنے کا کوئی گمان نہیں ہے،لیکن یہاں تو عورت کو سانس لینے کے لئے بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تعلیم حاصل کر سکتی ہے یا نہیں اِس کا فیصلہ کوئی اور کرتا ہے، اِس کی شادی کب کہاں اور کیسے ہو گی یہ بھی وہ خود طے نہیں کر سکتی، وہ اپنی مرضی سے کام کرنے یا نہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتی۔لوگ جب کسی لڑکی کو بیاہ کر لے جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اب وہ ان کی غلام ہے، اس پر سب کی خدمت فرض ہو گئی ہے اور ان سب خصوصیات کا تعلق تعلیم سے ہرگز نہیں ہے، پڑھے لکھے گھرانوں میں دقیانوسی روایات قائم ہیں بلکہ پوری فخر سے نبھائی بھی جاتی ہیں۔مرد اپنے سے جڑی عورت چاہے وہ ماں ہے، بیٹی ہے، بیوی ہے یا بہن ہے، کو تحفظ دے سکتا ہے اور اسے دینا بھی چاہئے لیکن حفاظت کے نام پر زندگی اجیرن کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔
پنجاب میں خاتون وزیراعلیٰ ہیں، مریم نواز کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اِسی ناطے اُن سے اُمیدیں بھی زیادہ ہیں، کم از کم اِس معاملے میں پنجاب کو ہی مثال بنا دیں تاکہ باقی بھی تقلید کریں۔ ریاست کو اپنا کردار نبھانے کی ضرورت ہے، قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے، یہ بات طے ہے کہ جب تک سزا کا ڈر نہیں ہو گا معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑتے ہی چلے جائیں گے۔