مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:1
انتساب۔۔۔ جان سے عزیز پوتی امیرہ احمد اور آنے والے پوتے پوتیوں کے نام
”عام لوگوں کی امیدیں اور خواہشات ہوتی ہیں جبکہ کامیاب لوگوں کے مقاصد اور منصوبے ہوتے ہیں۔“
”خودداری، وقار اور عزت کے سا تھ زندہ رہنا ہزار درجے اس دولت، شہرت اور طاقت سے بہتر ہے جو خودداری کو داؤ پر لگا کر حاصل کی جائے۔“
”کئی بار محبت کی کرچیاں جمع کرنے میں عمر بیت جاتی ہے اور کبھی نفرتیں سمیٹنے میں کئی سال گزر جاتے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو نفرتیں چن جاتے ہیں اور کرچیاں سمیٹ کر کہانی بن جاتے ہیں۔“
”اپنی کامیابی پر مٹے رہنا اور دل و دماغ کا مطمئن ہونا ہی اصل حاصل ہے نہ کہ دوسروں کا۔“
دیباچہ
یہ کل کی بات ہے۔ اپنے لئے لکھنا کٹھن اور مشکل ہوتا ہے اگر تعریف وتو صیف میں بڑھ گئے تو لفظوں کی بے حرمتی کے مرتکب اور اگر انصاف اور حقیقت سے کام لیا تو پوری شخصیت کا بھرم کھل جانے کا ڈر لاحق رہتا ہے۔ لوگ محض خوبیوں اور کامیابیوں کا مرکب ہوں تو فرشتے ہونے میں ذرا سی دیر نہیں لگاتے اور گر ناکامیوں اور خامیوں کی گرد سے اٹے ہوں تو اسے دوسروں سے منسوب کرنے کے فن میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت سی سوانح عمریاں آنے والی نسلوں کے لئے ایسا خلاء چھوڑ جاتی ہیں کہ ان کو پر کرنا مشکل، پڑھنا دشوار اور اٹھانا بوجھل ہوتا ہے۔
میں نے پوری کوشش کی ہے کہ زندگی کے تمام تجربات اور واقعات کو ویسے ہی قلم بند کروں جیسے وہ رونما ہوئے۔ میں اس حقیقت سے بھی واقف ہوں کہ اس آپ بیتی میں ایسی کوئی خوبی نہیں کہ جس سے پڑھنے والوں کے علم میں اضافہ ہونے کا ڈر ہو لیکن ان لوگوں کے لئے بہت کچھ ہے جنہوں نے بے خوفی سے ناانصافی کو قبول نہ کرنے کا پرچم اٹھا رکھا ہو۔ ان معاشروں میں ہمت کا فقدان ہوتا ہے جہاں ناانصافی کی ناگن اپنا پھن پھیلائے ظلم کا زہر اگلتی ہو۔ میں نے اس ناگن سے لڑنے کی کوشش ضرور کی ہے۔
یہ کہانی ایسے تمام سرکاری افسران و عمال کی ہے جو ذمہ داری کو احساس، خدمت خلق کو جذبہ ایمانی اور ناجائز آمدن کو جہاد تصور کرتے ہیں۔ میں نے 3 دہائیوں سے زائد پر مشتمل اس سفر میں کچھ محبتیں بانٹیں ہیں اور کچھ سمیٹی بھی ہیں لیکن بہت سی ان دعائیں میری اس خدمت کا اصل اثاثہ ہیں جو لوگوں خاص طور نچلے طبقے والوں نے دل سے مجھے دی تھیں۔ میں انہی دعاؤں کے سہارے ساری عمر بااثر لوگوں سے لڑتا رہا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ انسان ان دیکھی ان سنی دعاؤں کی بدولت مشکلات سے یوں نکل جاتا ہے جیسے مکھن سے بال۔ انسان ہوں کسی انجانی، انجانی غلطی سے مبرا نہیں ہوں، کسی لاعلم(نادانستہ) کو تاہی کے سرزد ہونے سے بھی انکاری نہیں ہوسکتا، لیکن میرے ضمیر پر ایسا کوئی بوجھ نہیں جس کی وجہ سے میں اللہ کے ہاں شرمندہ ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ سرکاری ملازم خواہ کسی بھی سطح کا ہو اس لحاظ سے خوش قسمت کہ اللہ نے اسے اپنے بندوں کی خدمت کے لئے منتخب کیاہے اور وہ سرکاری ملازم انتہائی بد قسمت کہ وہ دوران ملازمت اللہ کا قرب حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس کے بندوں کی خدمت کرکے جنت کا حقدار نہ بن سکا۔
وقت اور قدرت کے فیصلے ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے۔ بقول لیو ٹالسٹائی ؛”وقت اور صبر دو طاقتور جنگجو ہیں۔“ہماری سوچ اور منصوبہ بندی کچھ اور ہوتی ہے اور قدرت اور وقت کی کچھ اور۔ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔