مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:74
اس کا یہ مقبرہ غالباً فرعونوں کے دو تین بڑے مقبروں میں سے ایک ہے جس میں داخل ہونے کے لئے بہت دور تک ایک سرنگ نما راہداری پر چلنا پڑتا ہے۔ یہ راہداری کوئی ڈھائی سو فٹ لمبی ہے۔ پہلے یہ نشیب کی طرف جاتی ہے اور آخری چالیس فٹ ہلکی چڑھائی سے ہوتی ہوئی بادشاہ کے مدفن تک پہنچ جاتی ہے۔ دیواروں پر ابھری اور کھدی ہوئی تصاویر کی شکل میں بادشاہ کے سینکڑوں مجسمے، دیوتاؤں اور جانوروں کی اشکال بنی ہوئی ہیں۔ یہ اس وادی میں بنائے گئے ابتدائی مدفنوں میں سے ایک تھا، اس لئے اس وقت کے لوگ شائد دریائے نیل کے سرکش سیلابی پانیوں کا صحیح طور پر ادراک نہ کرسکے اور کم از کم آٹھ دس مرتبہ ایسا ہوا کہ بپھرے ہوئے دریا کا سیلابی پانی اس مقبرے میں داخل ہوا اور اس کو بُری طر ح تہس نہس کر دیا۔ نکاسیئ آب کا کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ ہی ایسی زیر زمیں عمارت میں یہ ممکن تھا۔ اسی وجہ سے جب ایک مرتبہ پانی یہاں داخل ہو جاتا تو پھر سالہا سال تک وہاں سے نکلتا نہیں تھا اور یہ مقبرہ مدتوں پانی میں ڈوبا رہتا جس کی وجہ سے اس کی دیواروں پر بنائے گئے نقش و نگار جگہ جگہ سے جھڑ کر گر گئے تھے اور اس کے سارے تہہ خانے اور ملحق کمرے کیچڑ سے بھر گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس فرعون کی موت کے چند سال بعد ہی اس کے مقبرے کو لٹیروں نے آ لیا اور خوب جی بھر کے اس کو لوٹا اور اس میں رکھا گیا سارا قیمتی سامان نکال کر لے گئے اور جو بڑی بڑی اشیاء وہ ساتھ نہ لے جاسکے وہ کئی صدیوں بعد آنے والے برطانوی اور فرانسیسی سائنس دانوں نے اپنے قبضے میں لے کر اپنے ملکوں کے عجائب گھروں میں پہنچا دیں۔ ان میں اس دور کا لکڑی کا فرنیچر اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کے علاوہ چھوٹی کشتیاں وغیرہ بھی تھیں۔
غالباً سیلابوں اور لٹیروں کے ہاتھوں مسلسل تباہی کے باعث اس کے مقبرے کو غیر محفوظ سمجھ کر اگلے بادشا ہ ر عمیسس ثالث کے دور میں ہی اس کی ممی کو نکال کر اس کے باپ بادشاہ سیتی اول کے مقبرے KV17 میں منتقل کر دیا گیا تھا اور پھر نا معلوم وجوہات کی بناء پر یہ وہاں سے بھی در بدر ہوا اور ایک بار پھر اس کو اٹھا کر ایک اور فرعون ملکہ انہاپی کے مقبرے TT320 میں رکھ دیا گیا۔ جب وہاں بھی اسے چین نہ ملا تو اسے اس وقت کے ایک بڑے پروہت کے مقبرے میں دفن کر دیا گیااور یہیں سے اسے 1881 میں دریافت کیا گیا تھا۔ وہاں اس کی ممی کے ساتھ رکھے گئے تاریخی کتبوں کی مدد سے اس کو شناخت کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ملکہ انہاپی اور اس پروہت کے مقبروں سے اور بھی درجنوں بادشاہوں اور ملکاؤں کی ممیاں نکلیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان ممیوں کو ان کے اپنے مقبروں سے نکال کر نسبتاً محفوظ مقام سمجھ کر عارضی طور پریہاں جمع کر دیا گیا تھا۔ رعمیسس ثانی کی ممی بھی انہی میں سے ایک تھی۔
رعمیسس ثانی کو مصر کا سب سے طاقتور، ذہین اور عظیم بادشاہ سمجھا جاتا ہے، جس نے کوئی چھیاسٹھ سال تک بلا شرکت غیرے اس ملک پر حکمرانی کر کے ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ اس نے اپنے دور میں آس پاس کے علاقوں میں بہت ساری فتوحات کیں۔ کئی پڑوسی مملکتوں پر حملہ کیا اور ان سے لڑ بھڑ کر ان پر قبضہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔ روایات کے مطابق اس نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی بنی اسرائیل قوم کو بھی مصر سے نقل مکانی پر مجبور کیا۔ اس نے مصر کو اپنے دور کی ایک بہت ہی طاقت ور اور عظیم سلطنت بنا دیا تھا۔ اس کو محلوں، مقبروں، معبدوں اور رفاہ عامہ کے بڑے منصوبے اور تعمیرات کا بہت شوق تھا۔ اس نے اپنے دور میں بے شمار عظیم الشان عمارتیں تعمیر کی تھیں جو قاہرہ سے لے کر بالائی مصر کے علاقے نیوبا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کا اپنا مقبرہ بھی اس نے خود ہی ڈیزائن کرکے تعمیر کروایا تھا جو اپنے دور کا ایک شاہکار مدفن تھا۔ اس کو ایک نظر دیکھنے کے لئے لاکھوں سیاح ہر سال مصر کا رخ کرتے ہیں۔ مقدس کتابوں میں اس فرعون کا ذکر آنے کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا والے اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور اسی واقعہ کو ذہن میں رکھ کر اسے اور اس کے مدفن کو دیکھنے کے لئے یہاں آتے ہیں۔ غالباً احمد بھی بول بول کر تھک گیا تھا اور میں سن کر، اس لئے ہم کافی دیر تک مقبرے کے باہر خاموش کھڑے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے رہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں