نواز، اوباما ملاقات سے پہلے، ملاقات کے بعد
ملکوں کی پالیسیاں ایک ملاقات سے تبدیل نہیں ہو جایا کرتیں، لیکن ہم جو ایک ٹیلی فون کال پر ”یوٹرن“ لینے والے ہیں، کچھ ایسی توقعات رکھتے ہیں۔ نواز، اوباما ملاقات کے بارے میں کسی کو بھی کوئی خاص خوش فہمی نہیں تھی.... اور تو اور پاکستان میں جہاں ہر دورے کو کامیاب دورہ قرار دیا جاتا ہے، خود سر تاج عزیز نے اس ملاقات سے کوئی زیادہ توقعات وابستہ نہ کرنے کا اشارہ دے دیا تھا۔ ملاقات میں بہت سے حلقوں کی نظریں ڈرون حملوں کے مسئلے پر لگی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عین انہی دنوں امریکہ کو ڈرون حملوں کے سلسلے میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق سے متعلقہ ادارہ بھی ان حملوں کی شدید مذمت کر چکا تھا۔ ادھر امریکہ میں ڈرون حملوں کی مخالف تنظیموں نے وائٹ ہاو¿س کے سامنے احتجاج کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ ان تنظیموں میں پاک یو ایس فریڈم فورم نے ،جو پاکستانیوں اور امریکیوں کی ایک سرگرم تنظیم ہے، پیشگی مظاہرین کو تیار کر رکھا تھا۔ اسی طرح امریکی خواتین کی اکثریت پر مشتمل”کوڈپنک“ نے بھی اعلان کر رکھا تھا۔ ان دونوں تنظیموں کے ساتھ انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے کئی گروہ تعاون کر رہے تھے۔ اگرچہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں اس سلسلے میں ہونے والی اموات وغیرہ کا درست ریکارڈ میسر نہیں، تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس موقع پر کئی اعداد و شمار اور چند لوگوں کے واقعات میڈیا کو فراہم کئے جو ذرائع ابلاغ پر موضوع بنے رہے۔
قبائلی علاقوں میں سے درست اعداد و شمار کی عدم دستیابی کو سی آئی اے بھی اپنے حق میں استعمال کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صرف دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے۔ بے گناہ لوگوں کے مارے جانے کی باتیں قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان علاقوں سے ایسی معلومات حاصل ہونے کے ذرائع نہیں ہیں۔ ان علاقوں تک رسائی میں خود پاکستانی ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہے، جو لوگوں کو سیکیورٹی خدشات کے تحت وہاں جانے سے روکتی ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی ان علاقوں تک رسائی قریب قریب ناممکن ہے۔ اسی موقع کی مناسبت سے ”واشنگٹن پوسٹ“ نے ایک بار پھر وکی لیکس کے انکشافات کو دُہرایا، جن کے مطابق ڈرون حملے پاکستانی حکام کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعاون کی بات بھی شامل تھی۔ اس سلسلے میں اسلام آباد سے بی بی سی کے پاکستانی نمائندے کی گواہی بھی شامل کی گئی، جس نے پرویز مشرف کے بیانات کا حوالہ دیا اور فوجی حلقے، جو ان حملوں کی افادیت کی بات کرتے رہے ہیں یا کرتے رہتے ہیں، اُن کا بھی حوالہ دیا۔ وکی لیکس کے انکشافات میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان کا بھی تذکرہ شامل تھا، جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ حملے جاری رہیں گے اور ہم ان کے خلاف پارلیمینٹ میں دکھاوے کا احتجاج کرتے رہیں گے۔ یوسف رضا گیلانی نے ایک بار پھر اس سے انکار کیا ہے، لیکن ہمارے ہاں انکار اور اقرار کے معیار بہت پست ہیں۔
اس تمام فساد کی جڑ پرویز مشرف کسی ایک بات کا اقرار کرنے پر بھی تیار نہیں۔ ان کے نزدیک ڈرون حملے خودبخود جاری ہوگئے۔ اکبر بگٹی نے خودکشی کر لی اور لال مسجد کو جانے کس نے کس کے حکم پر لالہ رنگ کر دیا۔ 21 مئی کو کچھ بھی نہیں ہُوا۔ اسلام آباد میں 21 مئی کے سلسلے میں پرویز مشرف نے جو کچھ کہا تھا، وہ شاید کسی فٹ بال میچ پر تبصرہ تھا۔ امریکہ جو اپنے آپ کو دور حاضر کا قیصر و کسریٰ سمجھتا ہے، اس کے نزدیک امریکہ کے دورے پر آنے والی کسی بھی شخصیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ امریکہ کے لاڈلے اسرائیل کو بھی اس سلسلے میں کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں ہے، لیکن امریکی میڈیا اور اسرائیل کے لئے لابی کرنے والے گروپ کسی اسرائیلی عہدیدار کی واشنگٹن آمد کو رنگین بنا دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ پاکستان کے کسی پہلے وزیراعظم کا دورہ تھا، جس پر واشنگٹن میں کچھ ہلچل محسوس کی گئی۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہو چکا ہے۔ عالمی سیاست کاری آج کل منافقت کے عروج کو چھو رہی ہے، اس لئے اس قسم کے اعلامیے اسی منافقت کا ایک شاہکار ہوتے ہیں۔ یہ ساری تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اس ملاقات کے سلسلے میں قومی دفاعی کونسل وغیرہ میں اور اعلیٰ فوجی حکام سے تو صلاح مشورہ کئے، لیکن انہوں نے قومی نمائندوں، بالخصوص حزب اختلاف کی جماعتوں سے رسمی سی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے (غالباً شملہ جاتے ہوئے) یہ اہتمام کیا تھا کہ انہیں رخصت کرنے کے لئے حزب اختلاف کے تمام رہنما ہوائی اڈے پر موجود تھے....(حزب اختلاف کی اس حمایت سے بھٹو کا وزن تو ضرور بڑھا، لیکن وہ قوم کے لئے شملہ معاہدے کی شکل میں کوئی کمال نہ دکھا سکے۔ آج بھی شملہ معاہدے نے ہی پاکستان اور کشمیریوں کے ہاتھ پاو¿ں باندھے ہوئے ہیں)....پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ نواز شریف اسلام آباد سے لے کر لندن تک جو بات کہتے چلے آرہے تھے، وہ انہوں نے واشنگٹن میں بھی بار بار کہی اور ملاقات میں بھی وہ تمام نکات اُٹھائے، اگرچہ ان میں سے اکثر کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا، لیکن یہاں ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر پاکستانی حکام کا اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر نظر آنے والا جوش و خروش واشنگٹن پہنچتے پہنچتے ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ کسی ایک ملاقات میں سارے معاملات طے نہیں ہو جاتے، نہ ہی اوباما کو ہمارے ڈکٹیٹروں کی طرح یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک اعلان کے ذریعے حکومتی پالیسی کو بدل کر رکھ دیں۔ اس ملاقات سے قبل اوباما حکومت کے فنڈز ریلیز نہ ہونے کی وجہ سے سخت مشکل سے گزر رہے تھے۔ اوباما کے مخالفین کو اسٹیبلشمنٹ میں خاصا اثر رسوخ حاصل ہے۔ ایسا عین ممکن ہے کہ اوباما کو مشکل سے نکالنے اور امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے در پردہ اپنا کردار ادا کیا ہو، لیکن اس کشمکش کے آغاز میں مَیں نے عرض کیا تھا کہ عوامی سطح پر ری پبلیکن کو نقصان پہنچے گا۔ بڑھکیں مارنے کے باوجود ری پبلیکن نہ تو دوسری بار حکومت بند کرا سکیں گے اور نہ اوباما کے ہیلتھ کیئر پروگرام کو منسوخ کر سکیں گے۔ گویا نواز شریف سے ملاقات کرنے والا اوباما پُراعتماد اور مضبوط اوباما تھا، لیکن ایسا مضبوط، جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر مضبوطی سے چل سکے۔ اگر اوباما پاکستان میں ڈرون حملوں کو روک سکے، عافیہ صدیقی کی رہائی کا فیصلہ کر سکے یا کشمیر کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکنے کی ہمت رکھتے تو وہ اپنی قوم سے انتخابی مہم میں کئے گئے وعدے وفا کر چکے ہوتے۔ افغانستان میں مزید فوج نہ بھیجی جاتی۔ گوانتا ناموبے کی جیل بند ہو چکی ہوتی اور کشمیر کے مسئلے میں کردار ادا کرنے کی کوئی صورت نکالی جا چکی ہوتی۔ یہ بھی اُن کا انتخابی وعدہ تھا۔ اوباما بے چارے تو حسب وعدہ امریکی معیشت کو اس پٹڑی پر نہیں ڈال سکے، جس پر ڈالنے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ لے دے کے انہوں نے ایک ہیلتھ کیئر بل رودھو کر پاس کرایا، جس سے اسٹیبلشمنٹ کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، لیکن اب تک اس کے لئے فنڈز کا حصول مسئلہ بنا ہوا ہے۔
جس طرح پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایس آئی کو لگام دینے میں ناکام ہو گئی ہے اور حراستی مراکز بدستور موجود ہیں،غائب کردہ لوگوں کو مستقل غائب رکھا جا رہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی سی آئی اے ایک منہ زور ادارہ ہے۔ڈرون حملے پینٹاگون کی بجائے سی آئی اے کرتی ہے اور سی آئی اے حکومتوں کی نہیں سنتی۔کوئی صدر تو سی آئی اے کو کسی بات پر قائل ہی نہیں کر سکتا۔پارلیمنٹ بھی فیصلہ کر دے تو فوج اور سی آئی اے اپنی مرضی کرنے سے باز نہیں آتیں۔ ایران کانترا سکینڈل کو یاد کیجئے۔کانگریس نے نکاراگوا کے باغیوں کو امداد دینے کی مناہی کردی تو فوج اور سی آئی اے نے اسرائیلی اسلحے کی ایران کو فروخت کا کاروبار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس طرح حاصل ہونے والا پیسہ نکاراگوا کے باغیوں کو پہنچنے لگا۔شام پر حملے کے خلاف سوشلسٹ امریکیوں کے شور مچانے پر اوباما نے پیوٹن کی تجویز سے فیس سیونگ کی راہ نکال لی، لیکن انہی حلقوں کو اب بھی شکایت ہے کہ سی آئی اے شام میں حکومت کے مخالفین کی مدد کررہی ہے۔خیال یہ ہے کہ اس طرح سی آئی اے ایک بار پھر اپنی پرانی حلیف القاعدہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائے گی اور القاعدہ کو قریب لانے کے مواقع شائد مصر میں بھی پیدا ہو جائیں۔القاعدہ کو مار کر ختم کرنے میں ناکامی کے بعد روس کے خلاف جہاد کے دور کی سی آئی اے کی حلیف القاعدہ کو دوبارہ اپنے حلقہ ءاثر میں لانا ایک تبدیل شدہ حکمت عملی ہوگی، لیکن اس کے کچھ ملکوں پر دوررس نتائج مرتب ہوں گے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ نوازشریف کے اس دورے کے بعد مستقبل قریب میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نیا موڑ لے گی اور وقت آنے پر ترکی، ایران، روس، چین، شمالی کوریا وغیرہ جیسا طرز عمل دیکھنے میں آئے گا۔بھارت اور امریکہ کے سلسلے میں حکمت عملی تبدیل ہوگی۔شام کے مسئلے پر ترکی اور ایران کی ہم خیالی اور سعودی عرب کی امریکہ سے برہمی، چین کا امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی چتاﺅنی ایک نئے نقشے کی تیاری کے سامان ہیں۔اس میں ابھی وقت لگے گا اور ضروری نہیں کہ جو منصوبہ بندی کی جائے، وہ کامیاب بھی ہو جائے، اگر ایسا ہوتا تو امریکہ عراق اور افغانستان میں اپنی پسند کے نتائج حاصل کر چکا ہوتا....ایک اور بات رہ چلی تھی۔کوڈپنک کی بنجامن نے کھوج لگایا ہے کہ امریکی حکومت نے ڈرون حملوں کے نتیجے میں متاثر ہونے والے عام شہریوں کے لئے بیس ملین ڈالر سالانہ کا ایک فنڈ قائم کر رکھا ہے۔اس کی رقم اب چالیس ملین ڈالر ہو چکی ہے۔بنجامن کی تنظیم کو ڈپنک نے ڈرون حملے بند کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرین کو اس فنڈ سے زرتلافی دینے پر بھی زور دیا ہے۔انہوں نے اس سلسلے میں امریکی سینٹ میں Appropriations Committeeکی خاتون صدر نشیں(چیئروومین) سینیٹر میکلسکی کے نام ایک اپیل تیار کی ہے کہ وہ اس فنڈ سے ڈرون حملوں کے شکار لوگوں کے لواحقین، پسماندگان اور معذور ہونے والوں کی مالی تلافی کا اہتمام کریں۔اس اپیل پر انہوں نے دستخط حاصل کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ دیکھئے اس کاکیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ٭