’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں‘

’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں‘
’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                            اپنے جس جملے سے کالم کی ابتدا کرنا چاہتا ہوں اس کے الفاظ تو نہیں بھولے ، مگر ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ 1990ئ کی دہائی کا کون سا سال تھا ۔ ان دنوں پرل کانٹیننٹل لاہور میں وہ لمبی استقبالیہ راہداری نئی نئی کھلی تھی جس کے شیشے والے دروازے ، ٹائلوں کی پھسلن اور برقی زینے سے جانبر ہو کر لگتا کہ بائیں مڑے تو لندن کی ہائی اسٹریٹ کنسنگٹن میں پہنچ جائیں گے ۔ ایک سرکاری تقریب میں صحافیوں کی دیکھ بھال چونکہ پریس انفارمیشن کے شفقت جلیل کررہے تھے ، اس لئے ان کی مسکراہٹ کے سحر میں آ کر میں بھی ہال کے باہر ہی رک گیا اور باتیں کرنے لگا جیسے کوئی شریک میزبان کھڑا ہو ۔ اس پر ایک آواز سنائی دی کہ آئیے ، اب آپ بھی اندر چلیں ۔ ’ہم بعد میں آئیں گے ، دونوں لڑکی والوں کی طرف سے ہیں ‘ ۔ میں نے اپنی اور شفقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔
اہل محفل نے میری جملہ بازی کی بے ساختہ داد دی ، مگر اب لگتا ہے کہ جو کچھ کہا اس کے پیچھے کوئی ایسا کامپلیکس تھا جس کے زیر اثر میں آج بھی ایک عزیزہ کی رخصتی پر دعاﺅں کا نذرانہ دینے کی بجائے مصروفیت کے بہانے محفل سے اٹھ آیا ہوں ۔ ایک تو لوگوں میں بیٹھ کر اپنے ووٹ پکے کرنے کا کوئی شوق ہے ہی نہیں ، اسی لئے شادی بیاہ کے نام پہ کسی آل پارٹیز کانفرنس کو فیس کرتے ہوئے مجھے خود پہ جبر کرنا پڑتا ہے ۔ دوسرا مسئلہ ہے یہ نفسیاتی رویہ کہ شرکت کی دعوت دلہن کی معرفت ہو یا دلہا کی ، شادی والے گھر ، ویڈنگ لان یا ہوٹل میں پہنچتے ہی میری طرف داری اپنے آپ لڑکے والوں کی طرف ہو جاتی ہے ۔ سو ، ان موقعوں پر فلم کرتار سنگھ کا ’ویر میرا گھوڑی چڑھیا ‘ تو ترنگ سے دوچار کرتا ہی ہے لیکن ’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں‘ تو میں جذباتی طور پہ افورڈ ہی نہیں کرتا ۔
پوری میڈیکل ہسٹری بیان کروں تو اس اولین خانہ آبادی کی سہ فریقی کارروائی کا خیال آتا ہے جس کا اوقات نامہ کسی سماجی یا معاشی مصلحت کے تحت ایک تین روزہ میچ کے طور پہ ترتیب دیا گیا ۔ ابھی مائیوں ، مہندی اور سلسلہ وار ڈھولکیوں کی وبا نہیں پھیلی تھی ، وگرنہ پرانے آٹھ بال کے اوور کے تحت ، یہ چھ دن کے کھیل اور ایک مکمل ریسٹ ڈے والا ٹیسٹ بھی ہو سکتا تھا ۔ ان دنوں بجلی کی کھڈیوں کے امپورٹ لائسنس ، جنہیں گوجرانوالہ اور گجرات کے لوگ ’پاوراں‘ کہتے ، ہاتھوں ہاتھ بکا کرتے تھے ۔ اس آمدنی کی برکت تھی کہ ایک دن ہینڈل سے سٹارٹ ہونے والی پرانی موٹروں کے مختصر جلوس میں ماموں مختار اور ان کے ہمنوا پہلوانوں کے شہر سے روانہ ہو کر وزیر آباد پہنچے ، پھر اگلی صبح ماموں سعید کے سر پر سہرا سجا کر لاہور سے گوجرانوالہ ، جہاں ان کی کزن اور ہماری خالہ انور دلہن بنی بیٹھی تھیں ۔
 وزیر آباد میں مہمانوں کا خیر مقدم اس لئے نہیں بھولتا کہ مقویات سے مزین پلاﺅ زردے سے پہلے ، رنگا رنگ مٹھائی کے ساتھ جو دودھ نوش فرمایا اس کے دھاتی گلاس ارک ارک تک لمبے تھے ۔ اگلے روز ، لاہور سے گوجرانوالہ تک کی مسافت اس عجیب بچگانہ انکشاف کی بدولت یاد رہ گئی کہ نئی نویلی سیٹلائٹ ٹاﺅن مارکیٹ کے پاس دلہا کے حق میں سکوں کی ’سوٹ‘ کرنے والا گنجا آدمی کار کے ساتھ چلتے ہوئے مسلسل اوپر نیچے نہیں ہو رہا ۔ اصل میں یہ کیمرا ٹرک آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کی بدولت تھی کہ کم اسپیڈ پر ہماری موٹر بار بار اچھلتی تو سیٹ کے اسپرنگ ان جھٹکوں کو اپنے اندر سما لینے کی کوشش کرتے ۔ واپسی کے سفر میں ایک جگہ موٹے ماماں جی کی گاڑی سے اتر کر خالہ انور کے ساتھ جا بیٹھنا بھی یاد ہے ، جو دلہن ہونے کے ناطے سے بس کی بجائے کار میں سوار ہونے والی واحد خاتون تھیں ۔
بہت بعد کی بات ہے کہ میرے بھائی کا رشتہ ہماری پھوپھی زاد سے طے ہوا تو دادا ابھی زندہ تھے ، جن کا چاروں بیٹیوں سے مشفقانہ سلوک خاندان بھر میں ہمیشہ مثالی سمجھا گیا ۔ لیکن بات پکی ہونے کی دیر تھی ، جس میں ڈیڑھ دو منٹ لگے ہوں گے کہ دادا اپنی تمامتر معقولیت کے باوجود کسی تمدنی ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہو گئے اور ’ہمارے بچوں‘ کی اصطلاح صرف اپنے اکلوتے بیٹے کی اولاد ، یعنی میرے بہن بھائیوں کے لئے استعمال ہونے لگی ۔ زمینی سچائی کے طور پر ’ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘ کا تو کوئی سوال نہیں تھا ، اور نہ ہی ’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں‘ ۔ مگر سب نے دیکھا کہ دم نکاح دادا ریشمی پگڑی اور ہار پہن کر دلہا میاں کے ساتھ ’اینڈ کیپ‘ کئے ہوئے ہیں اور ہماری پھوپھو ممتاز کی ٹیم کی پدائی ہو رہی ہے ۔ انگریزی میں ان حالات کے لئے کیا اچھا لفظ ہے ’ایم بیریس منٹ‘ ۔
ہماری زرعی معاشرت میں تو خیر اب بھی کھیڑوں کا راج ہے ، سو ہیر چیکاں کوئی سنتا ہی نہیں ۔ شہروں میں صورت حال بدل رہی ہے ، پھر بھی اچھے خاصے روشن خیال لوگوں میں بیٹیوں اور بہنوں کے لئے ’پبلک سروس کمیشن‘ کے انٹرویو ختم نہیں ہوئے ۔ بھئی ، جو بچے اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ، پیشہ ورانہ شعبوں سے منسلک ہیں اور اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں ، ان میں سے کسی کا باپ تو میرے اس دوست کی طرح اتنا فرینک ہونا چاہئیے کہ بیٹے سے اپنی ایک ہم جماعت کے حسن کی والہانہ تعریف سن کر بے ساختہ کہہ اٹھے ’پتر ، تو نے جوانی میں اپنی ماں نہیں دیکھی نا‘ ۔ یہ معرفت کا اونچا مقام ہے اور مردوں کی حد تک ۔ لیکن سوچیں ، یہ کس فقہ میں درج ہے کہ اخباروں میں شریف زادیوں کے اشتہار نکلیں اور وہ کنکھیوں سے دیکھنے والے غیروں کے سامنے چائے کافی کی ٹرالیاں پھدکاتی پھریں ۔
یقین نہ آئے تو کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے کسی موقر اخبار میں سنڈے ایڈیشن کے کلاسیفائڈ صفحات دیکھ لیجئے ۔ یہ مانتے ہوئے دل ڈوبتا ہے ، لیکن بابائے ایڈورٹائزنگ ڈیوڈ اوگلوی نے اچھے اشتہار کی جو خوبیاں گنوائی ہیں ، ضرورت رشتہ کے اکثر اعلانات میں وہ اکثر اجزا یکجا دکھائی دیں گے ۔ میری مراد پراڈکٹ ، پرامس ، پیکیجنگ اور پرائس یا پوزیشننگ سے ہے ۔ عمر ، تعلیم ، رہائشی پس منظر اور والدین کے کوائف کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی یونیک سیلنگ پوائنٹ بھی ملے گا ۔ کہیں قد و قامت ، جسمانی رنگت اور خدو خال کی صورت میں ، کہیں ذات برادری ، فرقہ وارانہ مسلک اور باپ دادا کی علاقائی یا لسانی پہچان کے حوالے سے ۔ سب سے نمایاں اشتہاروں میں ملٹی نیشنل کمپنی کی ملازمت ، دہری شہریت اور بیرون ملک میڈیکل پریکٹس کا جھاکا دیا جاتا ہے ۔
 ابلاغیات کے اسٹوڈنٹس چاہیں تو ان کے لئے یہ اشتہار تبدیل ہوتے ہوئے اجتماعی رویوں ، سماجی اور نفسیاتی ضرورتوں اور ہماری آئندہ ترجیحات کا ایک شفاف آئینہ ہیں ، جن کی زمرہ بندی کئی جہتوں کے لحاظ سے ہو سکتی ہے ۔ جیسے دیہی ، قصباتی اور شہری آبادی یا ناخواندہ ، تعلیم یافتہ اور اعلی پیشہ ورانہ تربیت کے حامل لوگ ، اس کے علاوہ چمک دمک رکھنے والے وہ اوصاف جو نئے زمانے میں کچھ زیادہ ہی پرکشش بن گئے ہیں ۔ یسرچ کے نتائج خواہ کچھ بھی نکلیں ، یہ بات پہلے سے طے ہے کہ ان اشتہاروں کی ’کاپی‘ میں لڑکی والوں کا لہجہ مہذب ، مصالحانہ بلکہ التجائیہ سا ہو گا جبکہ لڑکے والوں کی گھن گرج کہیں زیادہ پر اعتماد ، با رعب اور دھمکی آمیز ہوگی ۔ ان میں یورپ ، شمالی امریکہ اور بر اعظم آسٹریلیا میں مقیم وہ خوشخال رنڈوے ، طلاق یافتہ یا شوقیہ فنکار بھی ہوتے ہیں جنہیں آپ محض فنی طور پہ لڑکا کہیں گے ۔
اس مقام پر آپ کو خیال آ سکتا ہے کہ ہو نہ ہو ، یا تو کالم نویس کو انسانی حقوق کی کسی اصلی یا فرضی پامالی کی بنا پر عاصمہ جہانگیر ، آئی اے رحمان یا حسین حقانی سے ڈانٹ پڑی ہے یا کوئی ایسی گیدڑ سنگھی اس کے ہاتھ آ گئی ہے جس سے ہماری سوسائٹی میں ، کم از کم شادی بیاہ کے ضمن میں ، عورتوں کے سٹیتس کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ دونوں باتیں نہیں ، مگر ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنی خواتین پہ ترس کھانا چھوڑ دیں اور ان سے انصاف کرنا شروع کر دیں ۔ ترس کھانے میں یہ موج ہے کہ جس پہ چاہا ، جب چاہا اور جتنا چاہا کھا لیا ۔ انصاف کرنے میں یہ مشکل ہے کہ ہم سب چھوٹے بڑے ، عورتیں اور مرد ، پینڈو اور شہری یکساں ضابطوں کے پابند ہو جائیں گے ۔ بھئی ، آپ ہی نے حل پو چھا تھا ۔ تو بندہ ءخدا ، حل تو یہی ہے ۔  ٭

مزید :

کالم -