جب بھارت، ریاست جموں وکشمیر پر حملہ آور ہو ا (1)
25اکتوبر1947ء کوڈیفنس کمیٹی آف انڈیا کاایک اہم ترین ا جلا س بھارت کے دارالحکومت دہلی میں لارڈ ما ؤنٹ بیٹن کی صدارت میں ہوا۔ جس میں ریاست جموں کشمیر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا اور 27اکتوبر کی رات بھارت نے زمینی اور فضائی راستے سے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں۔ بھارت کا یہ حملہ اچانک نہ تھا بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ ،طویل پیش بندی کا نتیجہ اور بھر پور تیاری سے کیا گیا تھا۔ حملے کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتاہے کہ بھارت کی فضائیہ ،بری فوج، سکھ اور ہندوریاستو ں کے ریٹائرڈوحاضر سروس فوجیوں، شیو سینا اور راشڑیہ سیوک سنگھ جیسی درجنوں انتہا پسند ہندو جنونی تنظیموں کے ہزاروں مسلح رضاکاروں نے اس میں حصہ لیا تھا۔واضح رہے کہ تقسیم ہند کے وقت بھارت کے پاس 4لاکھ مسلح افواج اور متحدہ ہندوستان کی فوج کے بیشمار ٹینک،توپیں ،جنگی جہاز ،اسلحہ ساز فیکٹریاں اور دیگر بہت سا عسکری مال واسباب موجود تھا۔ بھارت نے اپنی افواج اور جنگی سازو سامان کا بڑا حصہ اس جنگ میں جھونک دیا تھا۔علاوہ ازیں اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کے ہندوستان میں تعینات وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سرپرستی، انگریز فوج کے جرنیلوں اور افسروں کی مدد و معاونت اور مشاورت بھی بھارت کوحاصل تھی۔ ریاست جموں کشمیر پر حملہ و قبضہ کے یہ وہ اقدامات تھے جو اعلانیہ کئے جارہے تھے کچھ اقدامات تھے جو پس پردہ اٹھائے جارہے تھے۔ان اقدامات کا محرک ریاست جموں کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔
بات یہ تھی کہ جب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستا ن کا قیام یقینی ہو گیا تو کانگریس اور مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خدشہ لاحق ہوگیا۔ریاست کشمیر کو ہاتھوں سے نکلنے سے بچانے کے لئے مہاراجہ نے جو اقدامات کئے ان کی تفصیل توبہت طویل ہے مختصر اََ یہ ہے کہ مہاراجہ نے ایک طرف پاکستان سے معاہدہ قائمہ کرلیادوسری طرف جواہر لال نہرو کے ساتھ خفیہ رابطے استوار کئے اور تیسری طرف ریاست جموں کشمیرمیں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کی تیاریاں کی جانے لگیں۔جیسے جیسے قیام پاکستان کی منزل واضح ہوتی گئی مہاراجہ کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ جارحانہ ہوتاگیا۔مسلمانوں کو دبانے، خون میں نہلانے اور ریاست پر قبضے کو مزید مضبوط ومستحکم کرنے کے لئے مختلف حربے و ہتھکنڈے آزمائے جانے لگے۔ مئی 1947ء میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا اسلحہ چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو بحق سرکار جمع کروادیں۔ دو ماہ بعد مہاراجہ کے ایما پر آرایس ایس، ہندو مہاسبھا اور دیگر ہندو جنونی تنظیموں کے تقریباََ پچاس ہزار رضاکار ریاست پہنچے جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈکوارٹر بناکر پوری ریاست میں خفیہ شاخیں قائم کیں۔
مہاراجہ کی فوج کے افسربڑے پیمانے پر ان بلوائیوں،قاتلوں اور حملہ آوروں کوہتھیار بنانے ،چلانے،مسلمانوں کے قتل عام ،عصمتوں کی آبروریزی،آگ لگانے اور املاک لوٹنے کی تربیت دینے لگے۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی سکھ اور ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہیدکیا ،آبادیاں ویران کردیں،مسجدیں جلادیں، گھر لوٹ لئے، عفت ماٰب خواتین کی عصمت دری کی اوربچے ذبح کئے۔ درجنوں دیہات ایسے بھی تھے جن کے تمام مردوزن اور بچوں کو گولیوں سے اڑادیاگیا۔ایک طرف ریاست کے اندر مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام تھا تو دوسری طرف 27اکتوبر کو انگریز اور بھارتی فوج کا ریاست پر بھر پور حملہ تھا۔گویا مسلمانوں کے لئے دوہری افتاد تھی۔ وہ ریاست کے اندر محفوظ تھے اور نہ باہر ان کے لئے جائے پناہ تھی۔قیامت کا سماں تھا۔زمین شعلے اگل رہی تھی اور آسمان سے آتش و آہن کی بارش تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے 80فیصد مسلم آبادی والی ریاست سے مسلمانوں کا نام ونشاں مٹ جائے گا۔
یہ سوال آج بھی تشنہ جواب ہے کہ انگریز اور ہندؤوں نے مسلمانوں پر جو ہولناک جنگ مسلط کی، مکمل اور یقینی تباہی کے جو منصوبے بنائے اس کا مقصد کیا تھا۔۔۔؟کہا جاتا ہے کہ بھارت ریاست جموں کشمیر کو اپنے اندر ضم کر کے اپنے رقبہ اور آبادی میں اضافہ کرنا چاہتا تھا حالانکہ بھارت آبادی اور رقبہ کے اعتبار سے پہلے ہی بہت بڑا ملک تھا۔ اصل اورسچی بات یہ تھی کہ مسئلہ سارا اسلام ومسلمان دشمنی ،دو قومی نظریہ ا ور پاکستان کی مخالفت کا تھا۔ آج بھی یہی مسئلہ ہے۔ہر جگہ اسلام کو مٹانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔خاص طور پر بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں گذشتہ چند ماہ میں اسلام اور مسلمان دشمنی کے جوبدترین واقعات رونما ہوئے اس سے ہماری نئی اور خوش فہم نسل کے لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان الگ وطن کا مطالبہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئے تھے؟
جہاں تک کشمیر کے مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے سیاسی،سماجی اور معاشی حالات ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی بدتر اور المناک تھے۔یہ درست ہے کہ غاصب حکمران اپنی محکوم رعایا سے نفرت کرتے ہی ہیں لیکن جو نفرت ریاست کے ڈوگرے حکمران مسلمانوں سے کرتے تھے اس کی تاریخ میں کم ہی مثالیں ملیں گی۔ وجہ یہ تھی کہ ڈوگرے ہندو تھے ،اس لئے اسلام اور مسلمان دشمنی ان کی رگ رگ میں شامل تھی۔ڈوگروں کا دور حکومت1846 ء سے 1947ء تک محیط ہے۔ ایک سو سال کا یہ دور ظلم و جبر، وحشت و سفاکیت سے عبارت اور تاریخ انسانی کے ماتھے کا بدنما داغ ہے۔ ڈوگرے چونکہ مذہباََ ہندو تھے اس لئے وہ انتقام،کم ظرفی، عدم برداشت، احسان فراموشی ،مشکل وقت میں بھیڑ بن جانے اور مشکل وقت نکل جانے پر بھیڑئیے کا روپ دھارنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ یہ بات شائد کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ڈوگرا راج کے بانی گلاب سنگھ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1806ء میں بھمبر کے مسلمان راجہ سلطان خان کے ہاں اصطبل کے چوکیدار کی حیثیت سے دوروپے ماہوار پر کیا تھا۔اس وقت یہ شخص بے روز گار تھااور محض گلابو کے نام سے جانا جاتاتھا۔ راجہ سلطان خان نے گلابو پر ترس کھاتے ہوئے اسے پناہ دی اورروزگاردیا لیکن جیسے ہی گلاب سنگھ نے طاقت حاصل کی اس نے اپنے محسن راجہ سلطان خان کو دھوکے سے جموں بلوا کر پہلے آنکھیں نکلوائیں اور پھربے رحمی سے شہید کردیا۔(جاری ہے)
اس کے بعد جیسے جیسے گلاب سنگھ طاقت پکڑتا گیا اس کی بے رحمی وسفاکی میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔وہ زندہ مسلمانوں کو ابلتے تیل میں ڈلواتا،زندہ مسلمانوں کی کھالیں کھنچواتا، کھال اتارنے کا عمل سر کی بجائے پاؤں سے شروع کیاجاتا۔مقصد صرف یہ ہوتا کہ ذبح ہونے والا مسلمان آسان موت نہ مرے بلکہ تڑپ تڑپ کر اور سسک سسک کر مرے۔ اس دوران وہ اپنے ولی عہد رنبیر سنگھ کو ساتھ بٹھاتا اور کہتا’’یہ ہے مسلمانوں سے نمٹنے اور حکومت کرنے کا فن اے فرزند! میری زندگی میں یہ فن مجھ سے سیکھ لو‘‘۔گلاب سنگھ کے دور میں مسلمانوں کی جاگیریں ضبط کرلی گئیں۔ہر قسم کی زرعی پیداوار، مال مویشی، جانور،چولہا ،انگیٹھی،دھوبی ،نائی،قصائی ،گھر میں ایک سے زائد کھڑکی رکھنے،ایک سے زائد شادی کرنے پرٹیکس لگادیئے گئے،مندروں میں عبادت ہندو کرتے لیکن مندروں کی تعمیر و بحالی کاٹیکس مسلمانوں سے وصول کیاجاتا۔یہاں تک کہ مہاراجہ کی مہمانداری کا ٹیکس بھی مسلمانوں سے وصول کیا جاتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مہاراجہ ایک سو سال پہلے مسلمانوں سے سالانہ 5کروڑ روپے ٹیکس وصول کیا کرتا تھا۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مہاراجہ اور اس کے خاندان کے افرادمسلمانوں کے ٹکڑوں پر پلتے،مسلمان کماتے ،محنت کرتے مہار ا جہ اور اس کے خاندان کے لوگ کھاتے۔ اس کے باوجود مسلمان دشمنی اور کمینگی کی انتہا تھی کہ وہ مسلمانوں کے سائے اور وجود سے بھی نفرت کرتے۔ صبح سویرے کسی مسلمان پر نظر پڑجانے کو وہ بدشگونی سمجھتے اور ایسے مسلمان کو قابل گردن زدنی قرار دیتے۔مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے پینے کے لئے جو پانی چشمہ شاہی سے لایاجاتااس کے بارے میں خصوصی اہتمام کیا جاتاکہ اس پر کسی مسلمان کی نظر نہ پڑے۔باوجود کوشش کے اگر ایسا ہو جاتا تو پانی ناپاک سمجھتے ہوئے ضائع کردیا جاتا۔ جس طرح آج گائے ذبح کرنے اوردیگرعبادات بجالانے پر پابندی ،رکاوٹیں،سزائیں اور قتل گاہیں ہیں اس وقت بھی حالات ایسے ہی تھے۔ ایک عرصہ تک صورت حال یہ تھی کہ گائے ذبح کرنے والے مسلمان کے گلے میں رسی ڈال کے پتھروں پر گھسیٹا جاتااس کے باوجو د اگر اس میں زندگی کی کوئی رمق نظر آتی تو پھانسی پہ لٹکا دیا جاتا۔ امر واقعہ یہ کہ اہل کشمیرکے لئے زندگی اجیرن، زمین تنگ اور کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ہزاروں مسلمان اپنا ایمان ،عزت آبرو اور جان بچانے کے لئے ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ اس وقت گوجرانوالہ ،سیالکوٹ،وزیر آباد ،لاہور اور دیگر شہروں میں ہمیں جو کشمیری بھائی نظر آرہے ہیں ان میں سے بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جن کے بزرگ ڈوگرا حکمرانوں کے ظلم سے بچنے کے لئے گھر سے بے گھر اور در سے بے در ہونے پر مجبو ر ہوئے تھے۔
بات یہ نہیں کہ پیکر صبر وثبات اہل کشمیر اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر خاموش تھے۔وہ وقتاََفوقتاََ صدائے احتجاج بلند کرتے رہے،جلاوطنی اور پھانسیوں کی سزائیں پاتے رہے۔ معاشی اور سماجی ظلم ایک حدتک قابل برداشت تھا لیکن جب ڈوگرا حکمرانوں کی دین اسلام میں مداخلت حد سے بڑھنے لگی تووہ شعلہ جوالا بن گئے۔ 29اپریل 1931ء کو خطبہ عید کی بندش،4جون 1931ء کو توہین قرآن مجید کا واقعہ اور 13جولائی 1931ء کو 21مسلمانوں کی مظلومانہ شہادت۔ ۔۔۔کے واقعات نے تحریک کشمیر کو عروج پر پہنچا دیا۔
واضح رہے کہ 30کی دہائی میں جو تحریک چلی اس میں کشمیری مسلمانوں کا مطالبہ صرف عبادات پر عائد پابندیاں ختم کرنے اوربنیادی حقوق کی بحالی کا تھا۔برصغیر کے مسلمانوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مہاراجہ سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ کشمیری مسلمانوں کو انسانی حقوق دیئے جائیں لیکن ہو ایہ کہ محض بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے پر برصغیر کے ہندو میڈیا اورکانگریس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ وہ محض مذہبی تعصب میں مہاراجہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس طرح ایک سیدھے سادھے انسانی حقوق کے مسئلے کو فرقہ وارانہ اور محاذ آرائی کا رنگ دے دیا گیا۔کانگریس اور ہندو میڈیا کی اس غلط روش سے خیر کا پہلو یہ نکلا کہ مسلمانوں پر برہمن کا رخ وکردار پوری طرح عیاں ہوگیا۔ دوقومی نظریہ کا احساس جاگزیں ہو گیا۔بر صغیر اور کشمیر کے مسلمانوں کے باہمی روابط وتعلقات مزید پختہ تر ہو گئے۔انہیں یقین ہوگیا کہ ہندو ان کی عزت وآبرو اور ایمان کے دشمن ہیں لہذا اگر انہوں ایک دوسرے کا ہاتھ نہ تھاما تو برہمن انہیں ہڑپ کر جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ جب برصغیر میں قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اہل کشمیر اس تحریک کا ہراول دستہ بن گئے۔’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ‘‘ا ن کے دل کی آواز بن گیا۔کشمیری مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے 19جولائی 1947ء کے اجلاس میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں فیصلہ دے دیا۔مزید براں برطانوی حکومت نے تقسیم ہند کا ایجنڈا اور ریاستوں کے الحاق کا جو فارمولہ وضع کیااس کی رو سے بھی ریاست جموں کشمیر کا الحاق صرف اور صرف پاکستان سے ہی
ممکن تھا۔۔۔۔۔۔لیکن بات وہی ہے جس کا ذکر ہم پیچھے کرچکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یعنی اسلام اور مسلمان دشمنی۔پاکستان کا قیام چونکہ اسلام کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا۔اسلامی رشتے ناطے کی بنا پر ہی اہل کشمیر نے اپنا تعلق پاکستان سے وابستہ کیا تھا،اس لئے ہندو اور انگریز جہاں پاکستان کے قیام کو ناممکن بنانے پر تل گئے وہاں ان کی بھر پور کوشش تھی کہ ریاست کا مملکت اسلامیہ پاکستان سے الحاق نہ ہونے پائے۔ ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام اور 27اکتو بر کا حملہ اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔
حقیقت میں دیکھاجائے تو 27اکتوبر 1947ء کوبھارت نے جو حملہ کیا وہ ریاست جموں کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست
پا کستان پرتھا۔یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے نہ جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی بھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا۔اس کا مطلب یہ کہ کشمیر کے اہل وفا کو صرف پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی تھی۔ سزا و جفا کا یہ سلسلہ 67سال سے جاری ہے۔ اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی اس لئے کہ اس محبت کی بنیاد دنیوی اغراض ومفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے۔ہمارے بزرگ قائد سید علی گیلانی،سید شبیراحمد شاہ،میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ ،محمد یٰسین ملک ،ہماری قابل احترام بہن سیدہ آسیہ اندرابی،حریت کانفرنس کے دیگر قائدین وکارکنان اورکشمیری عوام بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے ،پاکستانی پرچم لہرارہے ،سینوں پر گولیاں کھا رہے اور عہد وفا نبھا رہے ہیں۔ان اہل وفا کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اب مقبوضہ جموں کشمیر کی ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ دے دیا ہے کہ ریاست بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی۔
ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی کشمیر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں۔ ہمارے سول حکمران ہوںیا فوجی سب کا کشمیر کے ساتھ دعویِ محبت رہا ہے۔ ایک محبت جواہر لال نہرو کو بھی سرزمین کشمیر سے تھی۔ نہرو کے آباؤاجداد کشمیر کے ہندوپنڈت تھے۔ پنڈت ہونے کے ناطے یقیناًنہرو کے اجداد کا کشمیر میں ایک مقام رہا ہو گا مسلمانوں کی طرح ان کو ستایا،تڑپایا نہیں گیا ہوگا اور نہ ہی ان کے پرکھوں کو بے بسی اور بے چارگی کی حالت میں اپنا وطن چھوڑنا پڑاہوگا۔اس کے باوجود نہرو اپنے پرکھوں کی مٹی کے ساتھ محبت کا حق اداکرنے اور اسے اپنے نئے وطن کا حصہ بنانے کے لئے آخری حد تک چلے گئے تھے، ریاست جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے تمام توانیاں صرف کردیں اور سارے وسائل جھونک دیئے۔جنگ لڑنا پڑی تو لڑنے مرنے پر تیارہوگئے۔ نہرو نے ریاست جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے تقسیم ہند سے پہلے اور تقسیم ہند کے بعد مرتے دم تک جس طرح ظلم وجبرمکر وفریب سے کام لیااور جھوٹ پہ جھوٹ بولے اس پر بیسیوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ظاہر بات ہے آدمی ظلم وجبر اس وقت کرتا اور جھوٹ اس وقت بولتا ہے جب اس کا موقف غلط ہو۔اس کے برعکس کشمیر پر ہماراموقف درست مگر ہمارے حکمران اپنی درست بات بھی دنیا سے تسلیم کروانے میں ناکام ہیں۔وجہ یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر پر کبھی سنجیدگی اختیار نہیں کی۔خوش آئند بات ہے کہ میاں نواز شرف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مسئلہ کشمیر پر بہت جاندار موقف اختیارکیاہے۔ جنر ل راحیل شریف نے دورہ برطانیہ کے دوران بالکل صیح کہا کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈاہے۔ہمارے وزیر اعظم نے بھی دور ہ امریکہ کے دوران پاکستان میں بھارتی مداخلت اور کشمیر کی بات کرکے قوم کی ترجمانی کی ہے۔سچی بات ہے کہ اہل کشمیر اور ہماری قوم۔ ۔۔۔۔موجودہ سول وعسکری قیادت سے مسئلہ کشمیر کے حل کی اس سے بھی زیادہ کوششوں کی توقع رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ،ان کی اہلیہ کلثوم نواز ،جنر ل راحیل شریف اور وزیر اعظم کی کابینہ کے بہت سے وزراء سرزمین کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں اہم ترین عہدوں پر سرزمین کشمیر کے فرزند فائز ہوئے ہیں۔یہ سب وہ لوگ ہیں کہ جن کے بزرگ ڈوگروں کے مظالم کی وجہ سے ریاست جموں کشمیر چھوڑنے پر مجبو ر ہوئے تھے۔بنابریں ان احباب سے زیادہ بہتراہل کشمیر کے مصائب وشدائد کو کون جانتا اور سمجھتاہے۔ہم اپنے مقتدراحباب سے کہنا چاہیں گے کہ کشمیر کے ساتھ صرف ان کانسلی ہی نہیں بلکہ دین اور ایمان کا تعلق بھی ہے جو دنیا کے تمام رشتوں سے زیادہ مضبوط اور افضل ترین ہے۔ لہذا اس تعلق کو نبھانا اورمقبوضہ جمو ں کشمیر کو آزادکروانا فرض بھی ہے اور قرض بھی۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کشمیر کے ساتھ تعلق ماضی کا حصہ بن چکا ہے لہذاماضی کو بھول جانا چاہئے توا یسے لوگوں کویاد رکھنا چاہئے کہ اپنے ماضی کوبھول جانے والی قومیں خود کو بھول جایاکرتیں اپنی پہچان وشناخت کھو بیٹھتیں ، نشان عبرت بن جاتیں اور قصہ ماضی بن جایا کرتی ہیں۔