بلاول بینظیر اور نواز شریف
پاکستان کے بظاہر خاموش عوام اپنے ہر دلعزیز وزیراعظم نواز شریف سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور انہیں اپنا حقیقی ہیرو سمجھتے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے کئی طاقتوروں کی تمام تر مخالفتوں اور منفی پروپیگنڈوں کے باوجود اپنے ہیرو نواز شریف کو منتخب کرتے ہوئے تین بار ایوانِ اقتدار میں پہنچایا اور وزیراعظم بنوایا ہے۔ اس اعزاز کو توڑنے کا شرف کبھی کسی قسمت والے کو ہی نصیب ہو گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بلاشبہ اتنی باصلاحیت اور اس قوم کی ہونہار بیٹی تھیں، اگر وہ زندہ رہتیں اور ظالم دہشت گرد انہیں ہم سے چھین نہ لیتے تو امید و اثق تھی کہ قوم انہیں بھی بار بار منتخب کرتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سے سرفراز کرتی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں اور ان کی اپنی پارٹی میں بھی ہنوز ان جیسی فہم و فراست اور مقبولیت رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں ہے تو ایک طرح سے مایوسی اور حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بے رحم دہشت گرد وں کی گولیوں کا نشانہ نہ بنتیں زرداری ان کا بیٹا اچھا ہی ہو گا، لیکن افسوس کہ وہ ان جیسا نہیں ہے، بالخصوص اپنی سیاست کے آخری سالوں میں بے نظیر بھٹو جس متانت سے بولتی تھیں اور جس ذمہ داری سے فیصلے کرتی تھیں، ان کی شخصیت بہت زیادہ نکھر گئی تھی جبکہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے کو ابھی اپنی زبان پر کنٹرول ہی نہیں ہے نہ وہ سنجیدگی و متانت ہے نہ گہرائی ہے اور نہ بڑا پن ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا آئیڈیل ہمارا ایک سابق کھلاڑی ہے، کیونکہ ان کے ظاہری لچھن اس کھلاڑی جیسے ہی لگتے ہیں، البتہ ہماری دعا ہے کہ وہ جلد سیانا ہو جائے اور اپنا رول ماڈل ادھر اُدھر تلاش کرنے کی بجائے اس ہستی کو بنائے جس نے اسے جنم دیا تھا۔ وطن عزیز میں لاکھوں انسان ایسے ہوں گے جو اسے اپنی ماں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
نواز شریف بلاول زرداری کے سیاسی حریف ہیں، ان پر بلاشبہ وہ کھلی تنقید کریں اور بھرپور کریں، لیکن اپنی شخصیت کو سابق کھلاڑی کی سطح تک لے جانے سے احتراز کریں، بالخصوص نواز شریف کے حوالے سے بولتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھا کریں کہ میثاق جمہوریت سائن کرنے کے بعد بے نظیر بھٹو کا میاں نواز شریف سے تمام تر سیاسی مفادات و اختلافات کے باوجود بھائی بہن جیسا تعلق بن گیا تھا۔ سفاک قاتل کی گولیوں کا نشانہ بننے سے قبل، یعنی اس جہان رنگ و بو سے رخصتی سے عین پہلے وہ میاں نواز شریف کے ساتھ فون پر بات کرنا چاہ رہی تھیں۔ آپ جہاں سے چاہیں اس کی تصدیق کروا لیں، اس مقصد کے تحت فون ملایا بھی گیا، لیکن وہ انگیج ملا۔ پھر یہ میاں نواز شریف ہی تھے جو اپنی بہن کی یوں بے وقت موت پربہت زیادہ دکھی و رنجیدہ تھے، نواز شریف وہ مخلص بھائی ثابت ہوئے کہ بے نظیر بھٹوکی شہادت پر جس کے آنسو نہیں تھم رہے تھے، سیاست اپنی جگہ، ہے، لیکن انسانی تعلق اور باہمی وقار کی بھی ایک اہمیت ہے، اس کی قدرومنزلت ہر مہذب انسان کو ہو سکتی ہے، سوائے سابق کھلاڑی کے، جن کے لئے کوئی انسانی رشتہ ہے، نہ وقار۔۔۔ اگر کوئی چیز ہے تو وہ ہے صرف کرسی یا اقتدار۔۔۔ کہتے ہیں گیدڑ کی شرارتوں سے تنگ آکر کوئی صاحب اس کے سر میں کلہاڑی مارنے لگے تو گیدڑ چیخ پڑا کہ مجھے نہ مارنا ورنہ قیامت آ جائے گی۔ یہ سن کر کلہاڑی والا ٹھہر گیا اور پوچھا کیوں گیدڑ جی آپ کو مارنے سے قیامت کیسے آ جائے گی؟ تب گیدڑ بڑ ے آرام سے بولا: ’’بھائی دیکھو میرے لئے تو قیامت آ ہی جائے گی نا‘‘۔ بہرکیف ہمارے دانشور وفاقی وزیر احسن اقبال، جنہوں نے کبھی دشمن کے لئے بھی منہ ٹیڑھا نہیں کیا، جبکہ کھلاڑی صاحب انہیں مسلم لیگ کے ’’ارسطو‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں، اب انہوں نے بھی ان کا دل رکھنے کے لئے کہا ہے کہ جناب دل چھوٹا نہ کریں، آپ اپنا نام ’’وزیراعظم ‘‘ رکھ لیں، ہم آئندہ سے آپ کو اسی نام سے پکار لیا کریں گے۔
بہرحال بات شروع ہوئی تھی وزیر اعظم نواز شریف سے، جنہیں قوم نے تین مرتبہ سر آنکھوں پر بٹھایا ہے، اگر کوئی قانونی و آئینی پیچید گی آڑے نہ آئی تو چوتھی مرتبہ بھی قوم انہیں اس سنگھا سن پر بٹھانے میں کسی بخل کا مظاہرہ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اپنے اس پاپولر وزیراعظم سے ہمیں یہ شکایت ہے کہ وہ کسی اور کو چاہے سمجھائیں یا نہ سمجھائیں، لیکن آپ کے بچوں نے پانامہ لیکس کے تحت آف شور کمپنیاں بنائیں، برُا کیا، آپ کو انہیں ضرور منع کرنا چاہئے تھا۔ آپ سے آپ کی قوم جو اس قدر محبت اور اعتماد رکھتی ہے حسن حسین کو اس کا ہی لحاظ کر لینا چاہئے تھا۔ اُن کا کچھ گیا ہے یا نہیں گیا، مگر آپ کی عزت پر تو حرف آیا ہے۔ بلاشبہ قانون کی نظر میں ہر کوئی اپنے کئے کا آپ ذمہ دار ہے، جب آپ کے نام کی کوئی کمپنی سرے سے ہے ہی نہیں تو پھر آپ پر اعتراضات کرنے والے کم از کم قانون کی نظروں میں جھوٹے ہیں۔ ہمارے بہت سے لوگوں کو پورا یقین ہے کہ وہ پیسہ نہ پاکستان سے گیا ہے ،نہ لوٹ مار کا ہے۔ گمان یہ ہے کہ وہ پیسہ جدہ جلاوطنی کے دوران سعودی شاہوں نے اظہار محبت و اپنائیت کے طور پر بصورت تحفہ تحائف پیش کیا ہو گا جس پر اب آپ لب کشائی کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور، کیونکہ اس طرح ہردو معززین پر مختلف النوع سوالات کی بوچھاڑ ہو سکتی ہے اور بہت سی نئی بحثیں چھڑ سکتی ہیں۔ آپ کا آئیڈیل کردار یہ ہو سکتا تھا کہ ان تمام تر رقوم کو وطنِ عزیز میں لاتے ہوئے عبدالستار ایدھی کی طرح رفاعی کاموں میں لگا دیتے۔ مثال کے طور پر شریف ڈسپنسریوں یا سکولوں کا جال بچھایا جا سکتا تھا، اس سے آپ کے دل اور ضمیر کو کتنی تسکین ملتی اور تمام اہل وطن کے لئے یہ خدمت کی کتنی بڑی مثال ہوتی، آپ کے اندر سے یہ آواز آتی نواز شریف یہ قوم تم سے جتنی محبت کرتی ہے، آپ نے بحیثیت وزیراعظم جو خدمت کی ہے، اب اپنی ذاتی حیثیت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ خداوند کریم نے آپ کو کونسی نعمت ہے جو نہیں دے رکھی ، کسی چیز کی کوئی کمی نہیں۔ یہ تمام رقم اگر انسانی خدمت برائے صحت و تعلیم کے منصوبوں پر لگا دی جاتی تو آپ کو کوئی خاص کمی یا محرومی نہیں ہونی تھی، لیکن آپ کی ایسی کاوش آپ کو رہتی دنیا تک امر بنا دیتی۔