ماش کی دال مہنگی تو مونگ کی کھاؤ، سکندر بوسن!
فرانس کی آنجہانی ملکہ تو قبر کا حساب کتاب دے کر برزخ میں ہو گی،لیکن اس کی روح یہ جان اور دیکھ کر بڑی مطمئن اور خوش ہو گی کہ اس نے بے ساختگی میں فرانس کے عوام کو جو مشورہ دیا تھا وہ ضربِ المثل بن چکا اور اب بھی دُنیا میں عوام کی مجبوری کا جواب اِسی انداز میں دیا جاتا ہے، خصوصاً پاکستان میں تو’’ دِل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے مترادف اب حاکموں نے اس قول کو ہی آسرا بنا لیا کہ اس سے بہتر کوئی جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ قارئین! جانتے ہیں کہ فرانسیسی عوام روٹی کے لئے احتجاج کرتے ہوئے شاہی محل کے سامنے آ گئے تھے۔ اس وقت کی ملکہ فرانس نے بالکونی میں آ کر دیکھا تو پوچھا کہ یہ لوگ کیا مانگ رہے ہیں، ان کے مشیر یا وزیر نے بتایا کہ یہ روٹی مانگ رہے ہیں، ملکہ فرانس نے بڑی معصومیت سے کہا روٹی نہیں تو یہ لوگ کیک کھالیں۔
یہ فرمان شاہی ایسا مقبول ہوا کہ اب تک حکمران اشرافیہ اسی پر عمل کر رہی ہے۔ پاکستان میں تو ملکہ فرانس کی پیروی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بات کی جا رہی ہے، وفاقی وزیر سکندر بوسن جو خود زمیندار بھی ہیں اسی ملکہ کی پیروی کر رہے ہیں۔ دو روز قبل ایک تقریب میں ان سے کہا گیا کہ ماش کی دال کے نرخ بہت بڑھ گئے ہیں،تو فرمایا محترم سکندر بوسن نے اگر ماش کی دال مہنگی ہے تو لوگ مونگ کی دال کیوں نہیں کھاتے جو سستی ہے۔ شکر ہے کسی دِل جلے نے یہ نہیں کہا کہ آپ کے بس میں ہوا تو مونگ کی دال بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائے گی۔
یہ روایت موجودہ دور ہی میں نہیں نبھائی جا رہی ہے، فیلڈ مارشل جنرل(ر) ایوب خان کے زمانہ اقتدار کو ہمارے محترم شدت سے تنقید کرنے والے ایک لکھاری اچھا قرار دیتے ہیں۔ صدر ایوب(مرحوم) کے زمانہ اقتدار میں ان کے وزیر خزانہ محمد شعیب تھے، ان کے بارے میں بھی یہ خوش فہمی تھی کہ وہ عالمی معیار کے اقتصادی ماہر ہیں،اس دور میں آٹا مہنگا ہوا تو کئی مظاہرے بھی ہوئے، جن میں ہائے آٹا کے نعرے لگائے گئے۔ ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں نے وزیر خزانہ شعیب کی توجہ آٹے کی قلت اور اشیاء خوردنی کے نرخوں میں اضافے کی طرف دلاتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیوں اور حکومت کیا کر رہی ہے۔انہوں نے بڑی ہی معصومیت سے کہا مجھے تو پتہ نہیں، یہ اشیاء تو میری اہلیہ خریدتی ہیں ان سے پوچھوں گا، یقیناًان کی اہلیہ خود تو سبزی، دال اور گوشت لینے نہیں جاتی ہوں گی ان کا خانساماں یا کوئی نوکر یہ فرض نبھاتا ہو گا، جب محترم شعیب نے ان سے دریافت کیا ہو گا تو جواب آسان ملا ہوگاکہ ایسی تو کوئی مہنگائی نہیں ہے۔
شاید یہی روایت بعد میں بھی چلتی رہی کہ ذہین ذوالفقار علی بھٹو نے پکی پکائی تازہ روٹی کے پلانٹ لگا کر کہا تھا کہ روٹی دے دی پرانی باتیں گئیں،اس دور کے ساتھ، تازہ ترین کوئی ایک ہو تو صبر کریں یہاں تو پے در پے ایسے مشورے دیئے جا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی توجہ دلاتے ہوئے جب ان سے کہا گیا کہ سبزیاں اور دالیں تک مہنگی ہو گئی ہیں، تو انہوں نے مسکرا کر کہا لوگ مرغی کیوں نہیں کھاتے، جو سستی ہے۔ اُن دِنوں اتفاق سے مرغی کے نرخ150سے160روپے فی کلو تھے۔
بات یہیں تک نہیں رہی، آگے بڑھ گئی، خود وزیراعظم نے رحیم یار خان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرما دیا کہ آلو25روپے فی کلو بک رہے ہیں، وزیراعظم کے بعد اب سکندر بوسن صاحب نے دال مونگ کھانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ ہم کسی اتوار بازار یا دکانوں سے سبزی وغیرہ لانے کی بجائے منڈی سے لاتے ہیں کہ بازار سے قدرے سستی اشیاء مل جاتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے منڈی گئے اور آلو خریدے، بھاؤ پوچھا تو 50روپے فی کلو بتائے،ان کے ساتھ ٹماٹر لئے تو وہ بھی پچاس روپے کلو تھے دو کان دار سے پوچھا کہ وزیر اعظم نے آلو کے نرخ پچیس روپے فی کلو بتائے جواب ملا ان کو یہی بتایا گیا ہو گا، لیکن حقیقت یہ نہیں۔ یہ منڈی ہے تو یہاں50روپے ہے، باہر پرچون فروش اس سے زیادہ قیمت پر بیچ رہے ہوں گے تو قارئین! یہ حالات ہیں جن سے پاکستان کے عوام گزر رہے ہیں اور ان کو ملکہ فرانس کی پیروی میں مرغی اور مونگ کی دال کھانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے، ویسے آپ سب لوگ تو جانتے ہیں کہ محرم کی آمد سے قبل مرغی کے نرخ150 روپے فی کلو تک آ گئے تھے، محرم آتے ہی اضافہ شروع ہوا اور نرخ 215سے،220 روپے فی کلو تک پہنچ گئے۔ دسویں محرم کے بعد کچھ کم تو ہوئے،لیکن اب یہ 200روپے فی کلو تک ہیں، اِس لئے مرغی کھانے والی بات بھی حلق سے نہیں اُترے گی۔ اب وزیر محترم نے مونگ کی دال کا مشورہ دیا تو یہ بھی مہنگی ہو جائے گی۔
ان حالات سے جو اندازہ ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہماری اشرافیہ کو بازار سے کوئی غرض نہیں کہ وہ اتنے مالدار ہیں کہ ان کو نرخ متاثر ہی نہیں کرتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ خود تو سودا خریدتے نہیں ہیں، اِس لئے وہ کیا جانیں کہ ماش کی دال اور آلو کیا بھاؤ بِک رہے ہیں اور مرغی کے نرخ کیا ہیں۔ ویسے مرغی کے نرخ جو پارٹی مقرر کرتی یا نکالتی ہے ماشاء اللہ اس کا تعلق بھی تو اشرافیہ سے ہے، عوام بے چارے حیران ہیں تو ہوتے رہیں۔