شناختی کارڈ بلاک کرنے سے پہلے تحقیقات کر لی جائیں تو بہتر ہو گا ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
حکومتیں اگر کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اس کے قانونی پہلوؤں، اثرات و مضمرات اور اس بات کا جائزہ لے لیا کریں کہ یہ معاملہ اگر اعلیٰ عدالتوں میں جائیگا تو کیا ان کے پاس اپنے اس اقدام کے دفاع میں کافی و شافی دلائل اور شواہد ہوں گے؟ تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ گزشتہ چند برسوں میں بہت سے ایسے معاملات عدالتوں میں زیر بحث آئے ہیں جو اس سے قبل کبھی عدالتوں کے پاس نہیں گئے تھے، وجہ غالباً یہ تھی کہ لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر وہ اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو متعلقہ افسر ناراض ہو جائیں گے، اب بھی اگر کوئی شہری اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کسی محکمے یا افسر کے پاس اس سلسلے میں ٹھوس دفاع نہیں ہوتا تو ایسے درخواست گزار پر دباؤ ڈال کر اسے مقدمہ واپس لینے کی ہدایت کی جاتی ہے، جو معاملات پولیس سے متعلق ہوتے ہیں، زیادہ تر انہی کیسوں میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں لوگ ایسے ہوں گے جو کسی نہ کسی انداز میں کسی نہ کسی محکمے کی زیادتی کا شکار ہو رہے ہوں گے، لیکن وہ بوجوہ اپنا کیس لے کر عدالت میں نہیں جاتے۔ البتہ جو یہ جرأت یا جسارت کرلیتے ہیں، انہیں کوئی نہ کوئی ریلیف مل ہی جاتا ہے۔ یہی حال شیڈول فور میں ڈالے جانے والے ہزاروں لوگوں کا ہے، اس پر احتجاج تو ہو رہا تھا لیکن پہلی دفعہ ایک امام مسجد نے اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے تو فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے ہیں کہ وزارت داخلہ کسی شہری کا شناختی کارڈ بلاک نہیں کرسکتی، اس کے لئے پہلے سے نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، بغیر ثبوت اور یکطرفہ طور پر اطلاع دئیے بغیر شناختی کارڈ بلاک کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس بھی دئیے ہیں کہ صفائی کا موقع دئیے بغیر فورتھ شیڈول میں بھی نام نہیں ڈالا جاسکتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے روبرو امام مسجد کا مقدمہ پیش ہوا تو فاضل جج نے سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہیں درخواست دہندہ کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کے معاملے کا علم نہیں، وہ اپنے دفتر سے معلوم کرکے بتا سکتے ہیں، جس پر عدالت نے 28 اکتوبر کو جواب دینے کی تاریخ مقرر کی۔ وزارت داخلہ کے حکم پر امام مسجد کا شناختی کارڈ بلاک کیا گیا ہے، وہ پنشن لینے گیا تو معلوم ہوا اکاؤنٹ بھی منجمد ہے۔
یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں ہے، اس وقت ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے شناختی کارڈ کسی قسم کی اطلاع دئیے بغیر بلاک کر دئیے گئے ہیں، حالانکہ اگر کسی جرم کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کی اطلاع دینے میں کیا مضائقہ ہے؟ اب ہو یہ رہا ہے کہ بیرون ملک جو لوگ محنت مزدوری کر رہے ہیں، ان میں سے جن لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے گئے ہیں جب وہ ایئر پورٹ پر اترتے ہیں تو ان پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان کا شناختی کارڈ تو بلاک کر دیا گیا ہے۔ اب ایئرپورٹ پر عجیب تماشا یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا شناختی کارڈ بلاک ہوتا ہے، ایف آئی اے والے ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیتے ہیں اور پاسپورٹ ہولڈر کو اطلاع دی جاتی ہے کہ جب ان کا شناختی کارڈ انہیں ملے گا تو وہ آکر پاسپورٹ بھی لے جائیں، لیکن اس سارے معاملے میں ایسے لوگوں کے لئے پریشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے اور جب وہ غیر حاضر ہوتے ہیں تو ان کے غیر ملکی آجر انہیں نوکری سے نکال دیتے ہیں۔ لوگوں کے ویزے کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ فورتھ شیڈول کی وجہ سے یوں دو چار دس نہیں ہزاروں لوگ اس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، ایک اطلاع کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد 30 ہزار ہے۔ بعض لوگوں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں، جنہیں گرفتار کیا گیا وہ ضمانتیں کرانے پر مجبور ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے جاتے ہیں، ان کے بارے میں بعد میں انٹیلی جنس بیورو سے معلومات لی جاتی ہیں، انٹیلی جنس اہلکاروں کے پاس پہلے سے کافی مصروفیات ہوتی ہیں، چنانچہ وہ اپنی سہولت اور وقت ملنے پر تحقیقات کے لئے جاتے ہیں، یوں لوگوں کی تحقیقات جلد مکمل نہیں ہوتیں اور ان کے شناختی کارڈ بدستور بلاک پڑے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں شناختی کارڈ ملتے ہیں نہ پاسپورٹ۔
اب ہائی کورٹ کے فاضل جج کے ریمارکس سے معلوم ہوا ہے کہ کسی کا شناختی کارڈ بغیر اطلاع کے بلاک کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزات داخلہ کے اندر جو اتنے بڑے بڑے افسر بیٹھے ہیں، کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس سلسلے میں قانون کیا کہتا ہے؟ اور بنیادی انسانی حقوق نام کی کوئی شے بھی وجود رکھتی ہے۔ اگر وہ ذاتی طور پر قانون سے واقف نہیں ہوتے تو بہتر ہے کہ وہ کسی ماہر کی خدمات حاصل کرتے اور اتنا بڑا اقدام کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے کہ قانون اس سلسلے میں کیا کہتا ہے، طریق کار یہ ہونا چاہئے کہ اگر کسی کے متعلق شکایات ہیں اور اسے شیڈول فور میں ڈالنا مقصود ہے تو تحقیقات پہلے کی جائیں اور شکایات درست ہونے کی صورت میں باقاعدہ اطلاع دے کر شناختی کارڈ بلاک کیا جائے، تاکہ ایک تو متعلقہ شخص کو معلوم ہو کہ اس کے خلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے اور کیوں ہو رہی ہے، سرکاری محکمے اگر گھوڑے سے آگے گاڑی باندھنے کی دیرینہ روش بدلنے کے لئے آمادہ ہو جائیں تو عدالتوں میں بھی سرکاری افسروں کو خجالت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔