”مودی تیری ماں کی“بے ہودہ ترین گانا

”مودی تیری ماں کی“بے ہودہ ترین گانا
”مودی تیری ماں کی“بے ہودہ ترین گانا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: شیراز قریشی
دنیا بھر میں وطن کے ساتھ اظہار محبت اور دشمن کو سخت الفاظ میں پیغام دینے کا رواج ہمیشہ سے ہی عام رہاہے۔اس میں کوئی شک نہیں یہ رجحان خطہ کے ساتھ ساتھ مذہب اور قوم پرستی کی بنیاد پر قائم رہاہے۔وطن سے ساتھ اظہار محبت کیلئے معاشرے کے تمام طبقات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جس کا بنیادی مقصد اپنے حریفوں کو اتحاد کا آئینہ دکھاناہوتاہے۔پاکستان اور ہندوستان کی ایک ساتھ آزادی اوردوقومی نظریہ کو بنیاد بنا کر دونوں اقوام 47ءکے بعد سے ہی ایک دوسرے کو دشمن تصوّر کرتی آئی ہیں۔اس دشمنی کی حدت مختلف اوقات میں کمی بیشی کے ساتھ موجود رہی تاہم اس کی کمی کیلئے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔سیاست ، کھیل،شو بز کے ساتھ ساتھ یہ روایت معاشرے کے تمام طبقات میں برابر سرایت کر تی نظر آتی ہے۔یہ روایت وطن عزیز اور پڑوسی ملک بھارت میں بھی خاصی نمایاں ہے۔یہ بات حقیقت ہے کہ جب بھی دونوں میں ملکوں کے درمیان سیاسی یا فوجی کشیدگی بڑھتی ہے تودونوں ممالک کی عوام ایک دوسرے کے سامنے اپنے اپنے’ ’ہتھیار“خواہ وہ لفظی ہوں یااسلحہ کی شکل میں ،کھڑے نظر آتے ہیں۔
دنیا بھر میں ممالک کی لڑائی میں سفارتی سطح پر سیاستدان اور افواج کو بارڈر پر لڑنے کے فرائض سونپے جاتے ہیں لیکن ایک طبقہ جو لڑائی میں براہ راست نہیں کودتا وہ فنون لطیفہ سے وابستہ ہوتاہے۔فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد تو امن کی مانند ہوتے ہیں جو انسانیت کے حق میں جنگ و جدل سے دور بھاگتے ہیںاور جب فنکار طبقہ بحیثیت مجموعی اس لڑائی میں کود پڑے تو جنگ کی سی شکل جنم لیتی ہے۔حال ہی میں ہونے والی پاک بھارت کشیدگی نے غیر معمولی صورتحال پید ا کردی ہے جس کے نتیجہ میں دونوں ممالک کی عوام ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں اور محب وطن ہونے کا پورا ثبوت دے رہے ہیں بلکہ اس جنگ نے فنکاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اسکی شروعات بھارت سے ہوئی ہیں ،انتہا پسند بھارتی جماعتوں نے بالی ووڈ میں کام کرنے اور ان سے کام لینے والے ہر فرد کو یہ کھلی دھمکی دے دی کہ اگر کوئی بھی پاکستانی ایکٹر یا گلوکار انکی فلم میں نظر آیا تو اسکی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور اس فلم یا سٹیج شو کو کسی جگہ بھی چلنے نہیں دیا جائے گا۔اس بار حیران کن حد تک بھارتی فلم انڈسٹری بھی ڈر گئی ہے۔اگر چہ سلمان خان نے لب کھولے تھے لیکن وہ بھی سل گئے۔اسکے برعکس پاکستانی فنکاروں نے بھارت کے ساتھ صریحا ً بائیکاٹ کا اشارہ بھی نہیں دیا بلکہ شکوہ کناں رہے کہ کیا بھارت اس قدر جنونی ہوسکتا ہے کہ فنون لطیفہ کو دہشت گرد ہتھیار سمجھنے لگ پڑا ہے۔
ان حالات ایک پاکستانی گلوکار علی گل پیرنے کوئی مصلحت پیش نظر نہیں رکھی اوربھارت کیلئے اپنے خیالات کا اظہار اپنے گانے ”مودی تیری ماں کی“ میں کیاہے۔سوشل میڈیا پر اس گانے کے وائرل ہونے کے بعد عام پاکستانی عوام نے اس کواپنی آواز سے تشبیہہ دی ہے۔اس گانے نے نہ صرف سوشل میڈیا پر دھوم مچائی ہے بلکہ اسے مختلف نیوز چینل نے بھی اسے نشر کیا۔ چونکہ گانا موجودہ حالات کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے لہٰذا اس میں الفاظ کا چناؤ میں دھمکی آمیز رویہ اپنایا گیا جس کو بھارتی عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی جانب سے سخت تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیاہے۔ پاکستان میں سنجیدہ طبقہ کی جانب سے اس گانے پرواضح تنقید کی گئی ہے کہ پاکستان کو اپنی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔یہ بات باعث شرم ہے کہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے بارے میں نازیبا اور جانور جیسے الفاظ کا چناؤ کیا جائے خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے خطہ کا سربراہ کیوں نہ ہو۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فنون لطیفہ سے وابستہ کسی بھی فرد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام کے منتخب سربراہ کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرے جس سے وہ اپنے سربراہ کو نہ پکار کر سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سےیدھ برپاہے ۔ان حالات میں فنکاروں بالخصوص گلوکاروں نے عوام کا جوش گرمانے کیلئے نہ صرف ملی نغمے گائے بلکہ محتاط الفاظ کا استعما ل کیا۔آج بھی حالات کی کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر طرح کے بیانات میں اخلاقی پہلوو¿ں کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ سفارتی معاملات کو سفارتی سطح پر،فوجی مسائل افواج کی سطح پر حل کئے جانے چاہئیں ناکہ فنون لطیفہ سے منسلک گروہ باہمی دست و گریبان ہونے لگیں۔ تاہم میں بھارتی وزیر اعظم اور عوامی ردعمل پر پاکستانیوں کے جذبات کو سمجھتا ہوں۔بھارتیوں نے ہمارے وزیر اعظم کے سر کی قیمت رکھ کر بہت بڑی توہین کی لیکن اسکا جواب پاکستان کے عوامی حلقوں کی جانب سے دیا گیا۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھلے سے اچھے نہیں ہوپارہے مگر وہ ہمارا ہمسایہ ہے ۔اسکے ساتھ جنگ اور امن کے حالات کا انحصار ہماری اجتماعی سوچ پر انحصار کرتا ہے ۔پاکستان کو ردعمل کی سیاست میں انتہائی موثر طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔گالی گلوچ کمزور دیتا ہے ۔واضح رہے کہ ہم گالیاں دیکر چاہے گانوں کی صورت میں ہوں،خود کوکمزور ثابت نہیں کرناچاہتے۔

مزید :

بلاگ -