دھرنا کیس ،عدالتیں آئینی حقوق کی پاسدار ، خرابی حکومتی مصلحت پسندی سے پیدا ہوتی ہے

دھرنا کیس ،عدالتیں آئینی حقوق کی پاسدار ، خرابی حکومتی مصلحت پسندی سے پیدا ...
دھرنا کیس ،عدالتیں آئینی حقوق کی پاسدار ، خرابی حکومتی مصلحت پسندی سے پیدا ہوتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : -سعید چودھری 

اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو کنٹینرز لگا کراور تحریک انصاف کو دھرنے سے وفاقی دارالحکومت کوبند کرنے سے روک دیاہے۔مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 2نومبرکے دھرنا کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف کمشنرکویقین دہانی کروانے کی ہدایت کی کہ کوئی سٹرک ، سکول ،ہسپتال بندنہیں ہوگا اورنہ ہی امتحانات کا شیڈول تبدیل کیا جائے گااوریہ کہ حکومت کنٹینرز لگا کر سڑکیںبند نہیں کر ے گی،عدالت نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کو ہدایت کی کہ عمران خان کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے کہ وہ دھرنے کے لئے مخصوص جگہ پر اپنا حتجاج کریں دوسری صورت میں قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ،عدالت نے عمران خان کو طلب کر تے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ آئندہ تاریخ سماعت پر31اکتوبر کو عمران خان کی موجودگی میں ان کی تقاریر کی ریکارڈنگز چلائی جائیں گی تاکہ وہ وضاحت کرسکیں کہ انہوں نے کیسے یہ بیان دیا کہ راستے بلاک کرکے حکومت کو کام نہیںکرنے دیں گے۔مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس عبوری فیصلے میں سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے حق سے انکار نہیں کیا گیا بلکہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ ایسے احتجاج کے دوران دیگر شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہونے چاہئیں ۔عدالت نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی بابت انتظامیہ سے یقین دہانی حاصل کی ہے ۔

تحریک انصاف کے قائدین نے اس عدالتی حکم کے خلاف اپیل میں جانے کا اعلان کیا ہے اور فاضل جج کی ذات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔آئین کے تحت عدالتی فیصلے پر تنقید ہوسکتی ہے کسی جج کی کردار کشی نہیں کی جاسکتی ،جج کی کردار کشی توہین عدالت کے زمرہ میں آتی ہے اور اگر عدالت اس پر نوٹس لے کر متعلقہ افراد کو سزا سنا دے تو وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل ہوسکتے ہیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ،کہا جاتا ہے کہ عدالتوں کو ایسے فیصلے جاری نہیں کرنے چاہئیں جن پر عمل درآمد ممکن نہ ہو ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے عبوری حکم میں ایسی کوئی بات نہیں جس پر عمل درآمد ممکن نہ ہو ۔اس عبوری حکم سے پی ٹی آئی سمیت کسی سیاسی جماعت کا حق احتجاج سلب نہیں کیا گیا بلکہ اس حق کو منظم انداز میں اس طرح استعمال کرنے کی بات کی گئی ہے کہ لوگوں کی جان ومال اور معمولات زندگی متاثر نہ ہوں ۔اس سے قبل بھی ایسے عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں حکومت کو احتجاج کے دوران شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی ۔ 2نومبر 2011ءکو لاہور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ لاہور میں باالخصوص مال روڈ پر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں ،مال روڈ پر ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہ دی جائے ،حکومت کو دیگر متمدن ممالک کی طرح احتجاج کے لئے شہریوں کو متبادل جگہ فراہم کرنی چاہیے جہاں وہ اپنے احتجاج کے حق کو استعمال کرسکیں ،عدالت عالیہ نے اپنے اس فیصلے میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ احتجاج کے لئے ضابطہ اخلاق تشکیل دیں تاکہ شہریوں کے سفر اور جان و مال کے تحفظ کے آئینی حقوق پامال نہ ہوں۔

عدالت نے اپنے اس فیصلے میں یہ بھی حکم جاری کیا تھا کہ لوگوں کے سفر ، نجی جائیدادوں اور تجارت میں مخل ہونے والوں سے آہنی ہاتھوںکے ساتھ نمٹا جائے۔اس عدالتی حکم کی نقل مناسب اقدامات کے لئے وزیراعلیٰ کو بھی بھجوائی گئی تھی لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی جس کا خمیازہ آئے روز کے احتجاجی مظاہروں کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔سیاسی جماعتوں نے بھی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کا تکلف نہیں کیا ،اگست2014ءکو لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان کی سربراہی میں قائم فل بنچ نے پاکستان تحریک انصاف اورپاکستان عوامی تحریک کو غیر آئینی طور پر لانگ مارچ کرنے اور اسلام آباد میں دھرنا دینے سے روک دیاتھا۔فل بنچ کے سامنے نکتہ ہی یہ تھاکہ انقلاب اور آزادی مارچ کا مقصد حکومت کو غیر آئینی طور پر گرانا ہے جیسا کہ طاہر القادری اور عمران خان کی تقاریر سے واضح ہے ،اس کیس میں بھی فل بنچ کو پروجیکٹر پر عمران خان کی تقریراور انٹرویوز دکھائے گئے تھے فل بنچ کے سامنے نکتہ آیا تھا کہ وہ احتجاج جس کا مقصد غیر آئینی منزل کا حصول ہو وہ غیر آئینی تصور کیا جائے گا اسی نکتہ کی بنیاد پر فاضل بنچ نے لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے غیر آئینی راستہ اختیار کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔آئین کا آرٹیکل 15تمام شہریوں کو نقل و حرکت کی آزادی دیتا ہے تاہم آزادی کا یہ حق قانون کے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع ہے اگر حکومت پابندی کے ایسے کسی قانون کو حرکت میں لاتی ہے تو احتجاجی جلوس اور دھرنا غیر آئینی ہوگا۔اسی طرح آئین کے آرٹیکل 16کے تحت شہریوںکواجتماع کی آزادی کا حق دیا گیا ہے تاہم ایسے اجتماع میں اسلحہ نہیں لے جایاجاسکتا اوریہ کہ یہ حق بھی آئینی طور پر معقول پابندیوں کے تابع ہے ، اس پابندی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے حکومت نے دفعہ144نافذ کرکے اسلام آباد میں اجتماع اور جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی ہے ۔

آئین کے آرٹیکل 19کے تحت شہریوں کو تحریر و تقریر کی آزادی حاصل ہے لیکن آئین میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ امن و عامہ کو خراب کرنے کے لئے یا توہین عدالت کے کسی جرم کے ارتکاب کے لئے تقریر نہیں کی جاسکتی اس آئینی آرٹیکل کے روسے بھی مذکورہ جماعتوں کی تقریریں اور احتجاج کو غیر آئینی تصور کیا جاسکتا ہے۔عدالتیں ہمیشہ خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہتی ہیں تاہم اگر کسی سیاسی سرگرمی سے لوگوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہورہے ہوں تو عدالتیں آئین کے محافظ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔حکومتیں سیاسی معاملات میں آئین اور قانون سے زیادہ مصلحتوں کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے مخالف قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں جبکہ حکومتوں کو ایسے عدالتی فیصلوں کو اپنی قوت بنانا چاہیے ،دوسرے لفظوں میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے عدالتیں حکومت کو اپنا کندھاپیش کرتی ہیں جس سے فائدہ اٹھانا حکومت کے اعصاب اور قوت فیصلہ پر منحصر ہوتا ہے ۔

مزید :

تجزیہ -