آلو کی کاشت
آلو پاکستان کی ایک اہم فصل ہے، کیونکہ اس سے فی ایکڑ آمدنی دوسری فصلوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ آلوکو مکمل غذا بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں کافی مقدار میں نشاستہ ، وٹامن ، معدنی نمکیات اور لحمیات پائے جاتے ہیں۔
عام اناج کے مقابلے میں خشک مادہ کی بنیاد پر 2سے 3گنا زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کو پورا کرنے اور گندم پر دباؤ کم کرنے کے لئے آلوکی پیداوار میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔
ہمارے ملک میں آلو ہی ایک ایسی فصل ہے جو ساحل سمندر سے لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں تک کاشت کی جاتی ہے۔ پنجاب میں آلو کی تین فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ میدانی علاقوں میں اس کی دو فصلیں یعنی موسم بہار اور موسم خزاں اور پہاڑی علاقوں میں صرف ایک یعنی موسم گرما کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔
آلو کی کاشت کے لیے زرخیز میرا زمین جس میں پانی کا نکاس بہتر ہو اورزمین میں مناسب مقدار میں نامیاتی ماد (1.5سے زیادہ) موجود ہوبہتر رہتی ہے۔ آلو کی کامیاب کاشت کے لیے ایک دفعہ مٹی پلٹنے والا ہل اور تین چار دفعہ عام ہل چلاکر زمین کو نرم اور بھربھرا کرلیتے ہیں۔
زمین کا ہموار ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ کھیت میں پانی کھڑا نہ رہے اور فصل کا اگاؤ بھی اچھا رہے۔ آلو کی کاشت کھیلیوں پر کی جائے۔ کھیلیوں کا فاصلہ 60-75 سینٹی میٹر اور پودوں کا فاصلہ 20 سینٹی میٹر ہونا چاہئے۔ بیج کی گہرائی 7 سینٹی میٹر سے 10سینٹی میٹر ہونی چاہئے۔
البتہ اگر کاشت مٹی چڑھانے والے ہل سے کرنی ہو تو بیج کی گہرائی 15سینٹی میٹر تک بھی ہو سکتی ہے۔ بیج والی فصل میں پودوں کا فاصلہ 15 سینٹی میٹر ہونا چاہئے تاکہ آلو کا سائز کم ہوکر بیج زیادہ نکلے۔ موسم بہارمیں بیج کاٹ کربھی لگایا جاسکتا ہے
بیج کاٹتے وقت یہ خیال رہے کہ ہر حصہ پر دو یا دو سے زیادہ آنکھیں ہوں۔ بیج کو کاٹنے کے بعداسے ایک دو دن تک صاف ستھری، سایہ دار اور ہوادار جگہ پر رکھیں۔ پھر محکمہ زراعت توسیع کے عملہ کے مشورہ سے پھپھوند کش زہر لگا کر کاشت کریں۔ آلو کی مختلف فصلوں کا وقت کاشت کچھ یوں ہے خزاں کی فصلماہ اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے۔
زیادہ اگیتی کاشت میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے اُگاؤ میں کمی ہوجاتی ہے اور بعض اوقات زیرزمین آلو گل بھی جاتے ہیں اور مائٹس(جوئیں) کے حملے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
اس لیے بوائی 20 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کرنی چاہیے۔ اس فصل کی برداشت فروری میں کی جاتی ہے جبکہ بیج والی فصل کوآخر اکتوبرمیں کاشت کریں اور 15 جنوری تک بیلیں کاٹ دیں تاکہ وائرس پھیلانے والے کیڑوں(سست تیلہ) سے بچ سکیں اور چھلکا سخت ہوجائے۔ یکم جنوری تا وسط فروری بہاریہ فصل کاشت کی جاتی ہے اور آخر اپریل سے مئی تک برداشت کی جاتی ہے۔
پہاڑی علاقوں میں موسم گرما کی فصل اپریل سے مئی تک کاشت اور اگست ستمبر میں برداشت کی جاتی ہے۔آلو کی تازہ پیداوار بطور بیج نئی کاشت کے لئے موزوں نہیں ہوتی۔ کاشت سے قبل خوابیدگی کو توڑنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ آلو10سے12ہفتے پڑا رہنے سے خوابیدگی خودبخود ختم ہوجاتی ہے۔ آلو کی کاشت کے لئے بیماریوں سے پاک تصدیق شدہ بیج کا استعمال انتہائی
ضروری ہے۔ بیج کو سرد خانے سے تقریباً دس دن پہلے نکال کر سایہ دار جگہ پر پھیلا دیں تاکہ بیج باہر کے درجہ حرارت پر اپنے آپ کو ڈھال لے اور اس میں شگوفے پھوٹ آئیں۔آلو کی منظور شدہ اقسام میں کارڈینل (، ڈایامینٹ (Diamant)، فیصل آباد سفید (Faisalabad White)، فیصل آباد سرخ (Faisalabad Red)، ایس ایچ5- (SH-5) اورپی آر آئی ریڈ شامل ہیں۔
موسم خزاں کے لئے شرح تخم 1200تا 1500 کلوگرام فی ایکڑ اور موسم بہار کے لئے اگر آلو کاٹ کر لگائے جائیں تو500 تا 600 کلوگرام فی ایکڑ استعمال کیا جاتا ہے۔
35 تا 55 ملی میٹر سائز اور 40سے 50گرام وزن کا آلو بیج کے لئے نہایت موزوں ہے۔آلو کی فصل کو گوبر کی کھاد 12 تا15 ٹن فی ایکڑ ڈالی جانی ضروری ہے۔ گلی سڑی کھاد کو ڈیڑھ دو مہینہ قبل کھیت میں ڈال کر ہل وغیرہ چلا کر اچھی طرح زمین میں ملانا چاہیے۔
مزید برآں سبز کھادوں کا استعمال مثلاًگوارہ اور جنتر بھی بہتر نتائج دیتا ہے۔کھادوں کی مقدار کا تعیّن کرنے سے پہلے زمین کا تجزیہ کروایا جانا چاہیے۔ اگر زمین کاتجزیہ نہ کروایا جاسکے تو اوسط زرخیزی والی زمین میں فی ایکڑ 100 کلوگرام نائٹروجن ،50کلوگرام فاسفورس ، 50کلوگرام پوٹاش اور 10 کلوگرام زنک سلفیٹ ڈالنی چاہئے۔
اگر گوبر کی کھاد ڈال لی جائے تو عناصرِ صغیرہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوگی ورنہ بمطابق اراضی فی ایکڑ فیرس سلفیٹ 30 کلوگرام مینگنیز سلفیٹ 12 کلو گرام اور بورک ایسڈ 2 کلوگرام ڈالنا چاہیے۔ فاسفورس، پوٹاش ، زنک و دیگر عناصر صغیرہ والی کھادوں کی ساری مقدار بوقت کاشت ڈالی جائے اور نائٹروجن والی کھاد کی ایک تہائی مقدار بوقت بوائی ڈالی جاتی ہے جبکہ نائٹروجن کی باقی مقدار دو حصوں میں ڈالی جائے۔ ایک حصہ فصل کی بڑھوتری اور دوسرا حصہ آلو بننے کے وقت ڈالا جائے۔ زیادہ کھادوں کااستعمال بے سود ہوگا۔پہلی آبپاشی کاشت کے فوراً بعد کریں۔
پانی کسی صورت کھیلیوں کے اوپر نہیں چڑھنا چاہیے۔ صرف کھیلیوں کے دو تہائی حصہ تک پہنچنا چاہیے۔ ورنہ زمین سخت اور اگاؤ متاثر ہوگا۔ بعد میں یہ وقفہ موسم کے مطابق بڑھا کر7سے 10 دن کر دینا چاہئے۔
آلو نکالنے سے پندرہ دن پہلے آبپاشی بند کر دینی چاہیے۔زمین میں نمی کی مقدار موزوں حد تک رہنی چاہیے تا کہ زیر زمین آلو صحیح طور پر نشونما پا سکیں۔
اگر زمین میں نمی کم یا زیادہ ہو تو آلو بد شکل ہوں گے اور پیداوار بھی متاثر ہو گی۔ اگر کورے کا خطرہ ہو تو فوراََ آبپاشی کریں۔آلو کی فصل کو برداشت کرنے سے 10 سے 15 روز قبل آلو کی بیلیں کاٹ دینی چاہئیں۔
اس سے آلو کی جلد سخت ہو جاتی ہے اور وہ کولڈ سٹور میں ذخیرہ کے دوران بھی نہیں گلتا۔ اس کی برداشت صبح کے وقت کرنی چاہیے۔ جب درجہ حرارت نسبتاً کم ہو۔ زیادہ درجہ حرارت میں آلوؤں کے گلنے سڑنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔آلو کو برداشت کے بعد 3سے 4دن سایہ دار جگہ پر رکھیں تاکہ برداشت کے دوران آنے والے زخم مندمل ہو جائیں۔موسم خزاں کے آلو جب جنوری فروری میں برداشت ہوتے ہیں تو بھاؤ کم ہو جاتاہے زیادہ قیمت کے حصول کے لئے زمیندار آلوؤں کو فارم پر ڈھیر کی صورت میں جمع کر لیتے ہیں تاکہ اس کی فروخت کچھ دیر بعد کی جاسکے لیکن ڈھیر میں ہواکا گزر نہ ہونے کی وجہ سے آلو گلنا شروع ہو جاتے ہیں بلکہ درجہ حرارت زیادہ ہونے پر ان کی ظاہری شکل بھی خراب ہو جاتی ہے۔
اور اس طرح مارکیٹ میں کم قیمت وصول ہوتی ہے۔اس سنبھال کے طریقے کو محکمہ نے اور زیادہ بہتربنادیا ہے ڈھیر زمین سے کم از کم ایک فٹ اونچے بیڈ پر لگایا جائے۔ ڈھیر کے اندر ہوا کے گزرنے کے لئے ڈکٹ لگائی جاتی ہیں جسے صبح کے وقت بند کر دیا جاتا ہے تاکہ ڈھیر کے اندر گرم ہوا کا گزر نہ ہو سکے اور اسے ٹھنڈی ہوا کے گزرنے کے لئے رات کو کھول دیا جاتا ہے۔
ڈھیر کی گرمی خارج کرنے کے لئے چمنی کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے ڈھیر کی گرمی خارج ہو جاتی ہے اور ڈھیر کے اوپر پرالی کی مناسب تہہ ڈال دی جائے تاکہ موسمی تغیرات سے بچایا جا سکے۔ اس طریقہ سے نہ صرف آلو فارم پر زیادہ دیر رکھے جا سکتے ہیں بلکہ اس کی خاصیت بھی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔