طورخم بارڈر پر 2 ہزار کنٹینرز 2 ماہ سے خالی کھڑے ہیں
پشاور( سٹی رپورٹر) آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن(APCAA)کے نائب صدر، سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (SCCI) کی ریلوے اور ڈرائی پورٹ سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین اور فرنٹیئر کسٹمز ایجنٹس گروپ (FCAG) خیبر پختونخوا کے صدر ضیاء الحق سرحدی نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ طورخم بارڈر کے اُس پار خوڑ میدان میں 2000سے زائدخالی کنٹینرز بمعہ ٹرکوں کے گزشتہ ماہ 5ستمبر سے لے کر آج تک کھڑے ہیں۔تفصیلات کے مطابق جو ٹرک بمعہ کنٹینرزکراچی سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان لے کر جلال آباد افغانستان تک جاتے ہیں۔اُن کنٹینرزکو خالی کر کے جب کراچی کے لیے واپس کیا جاتا ہے تو راستے میں خوڑ میدان میں ان ٹرکوں کو افغان حکام10سے 15روز تک روک لیتی ہے۔اور جو ٹرک 10،15 ہزار روپے اُن کو دے تو اُن کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے پاکستان فریش فروٹ ٗ کوئلہ اور دیگر مصنوعات ایکسپورٹ کی جا رہی ہیں اس لئے باقی ٹرکوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان جانے والے خالی ٹرکوں کوبمعہ کنٹینرزکو روکا جاتاہے ۔ضیاء الحق سرحدی جو کہ پاک افغان جائنٹ چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری (PAJCCI) کے سابق سینئر نائب صدر بھی ہیں نے مزید کہا کہ گذشتہ کئی روز سے خالی کنٹینروں کے کھڑے رہنے سے شپنگ کمپنیوں اور ٹرانسپورٹرز کولاکھوں روپے فالتوادا کئے جاتے ہیں۔کیونکہ خالی کنٹینرز مختلف شپنگ کمپنیوں کے ہوتے ہیں جبکہ ان کنٹینرزکا فری ٹائم 7سے 14دن ہوتا ہے،جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کا مال کراچی پورٹ سے لوڈ ہو کر افغانستان جانا ہوتا ہے اور خالی کنٹینرز واپس کراچی شپنگ کمپنیوں کے حوالے ہونا ہوتے ہیں۔اس طرح تقریباً کراچی سے جلا ل آباد اورجلال آباد سے کراچی تک 20دن سے لے کر30دن لگ جاتے ہیں اور لاکھوں روپے کا شپنگ کمپنیوں کو ڈ ٹینشن چارج(ڈیمرج)ادا کیا جاتا ہے جو کہ120ڈالر سے لے کر160ڈالر روزانہ کے حساب سے شپنگ کمپنیوں کو اداکیا جاتا ہے یعنی ہر کنٹینر پر 1.5لاکھ سے لے کر2لاکھ روپے فالتو ادا کرنے پڑتے ۔اس اقدام سے خالی کنٹینرز اور ٹرکوں کی قلت ہو جاتی ہے اور بانڈڈ کیرئیر جن کا کرایہ کراچی سے جلال آباد 2لاکھ سے ڈھائی لاکھ ہوتا ہے وہ بڑھ کر 3لاکھ سے4لاکھ روپے تک ہو جاتا ہے۔انہوں نے افغان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس مسئلے کافوری حل نکالا جائے اور ایف بی آر 121 SROکو ختم کر ے تاکہ لوز کارگو کے زریعے پاکستان ریلوے کی ویگنوں میں مال لوڈ کیا جا سکے اور کراچی پورٹ پر ہی خالی کنٹینرز شپنگ کمپنیوں کے حوالے کیے جا سکیں۔اس وقت گیتا (Gitta)گڈز ان ٹرانزٹ ٹو افغانستان میں غیر ضروری اخراجات اور افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ (APTTA) میں مشکلات کی وجہ سے 70فیصد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا کاروبار بجائے کراچی پورٹ کے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار اور بندر عباس منتقل ہو گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں جانب کی بیورو کریسی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے پر نظرِ ثانی کرے تاکہ پاک افغان باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔