ای چالان اور کیمرے کی آنکھ
جن لوگوں سے زندگی کے عملی طور طریقے سیکھنے میں مدد ملی، اُن میں مرحوم دوست چودھری مشتاق حسین سر فہرست ہیں۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے بتدریج سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے تک ترقی کے عمل نے انہیں انسانی نفسیات کو کئی کئی زاویوں سے دیکھنے کا ماہر بنا دیا تھا۔ جیسے یہی سبق کہ کسی دیرینہ جاننے والے کو طویل وقفے سے ملو تو مت سمجھو کہ یہ وہی آدمی ہے،جو تمہارا یار آشنا تھا، پتا نہیں مہ و سال کے اتار چڑھاؤ نے اُسے کس حد تک بدل دیا ہو۔ پھر یہ کہ سورج غروب ہو جانے پر بڑی سڑک چھوڑ کر کسی انجانے راستے کا سفر ہر گز نہ کرو، یہ خطرناک ہوتا ہے۔ ایک دلچسپ نصیحت اَور کہ اگر کہیں کوئی کام پھنس جائے تو تمام بااثر دوستوں سے کہہ دو کہ آپ ہی نے کروانا ہے اور جب ہو جائے تو ہر ایک کو فون کر کے کہو ’سر، آپ نے کام کروا دیا، بہت شکریہ‘۔
چودھری صاحب نے، جو میر پور اور جہلم کے درمیانی علاقے میں اپنی آبائی شناخت یا گوت کے حوالے سے ’برگٹ‘ کا لاحقہ بھی استعمال کرتے، اپنے مشورے عام سائلوں یا درخواست گزاروں تک محدود نہیں رکھے ہوئے تھے۔ بعض اوقات تو اچھے خاصے افسر بھی اِن سے استفادہ کر لیتے۔ مثلاً اگر آپ سینئر پوزیشن پہ ہیں تو اُس وقت حکمت ِ عملی کیا ہونی چاہئے جب کوئی زیادہ سینئر افسر کسی شخص کو ناجائز کام کا اشارہ دے کر آپ کے پاس بھیج دے۔ایسی صورت میں فارمولہ یہ تھا کہ چائے منگوائیں،ساتھ بسکٹ بھی ہونے چاہئیں۔ اِس دوران سائل کو ہنس ہنس کر تاثر دیں کہ اُس کا مسئلہ ہے تو پیچیدہ، لیکن مہینے بھر میں حل ہو جائے گا۔ مہینے بعد آئے تو چائے دوبارہ پلائیں، مگر بسکٹ نہ منگوائیں۔اِس مرتبہ ذرا بے رخی سی تسلی دے دی جائے۔سائل غیرت مند ہو تو تیسری بار نہیں آتا۔اگر بے غیرت ہے تو کوئی اور حل نکال لے گا۔
ہر چند کہ مَیں کبھی کسی فوجداری مقدمہ میں مطلوب نہیں رہا، پھر بھی وطن ِ عزیز میں رہتے ہوئے سڑک پر قانون کے محافظین سے ٹاکرا تو ہو ہی جاتا ہے، جن دنوں ٹریفک کا نظام بی اے پاس پڑھاکو بچوں کے پاس نہیں آیا تھا، یہ اتفاق ہر تین چار مہینے گزرنے پہ ہو جاتا۔ وجہ اِسی نوعیت کہ ہری بتی پہ دائیں تِیر کا اشارہ دیکھ کر آپ سیدھے ہاتھ مڑنے لگے تو بیچ میں ایل ڈی اے کا ٹرک آ گیا۔ اب نہ فوری ٹرن لینے کی گنجائش، نہ ٹھیک سے لائٹ نظر آنے کا امکان۔ اِس پر جب کبھی حقائق و دلائل کا سہارا لیا تو جواب مِلا ’قانون شکنی تو ہوئی ہے، جناب‘۔ یکایک احساس ہونے لگتا کہ ’جناب‘ کا لفظ چودھری مشتاق والی وہی افسرانہ احتیاط ہے کہ سائل سے پہلی ملاقات میں بسکٹ ضرور منگوایا کرو۔یو ں اِس ڈرائیور کو جرمانہ ہو جاتا جس سے ولایت میں دس سال ٹریفک کا جرم سرزد نہیں ہوا تھا۔
اچھا، تو یہ بتائیے کہ زندگی میں اپنے اولین ’ای چالان‘ سے پیشتر جو اسی ہفتے ہوا، کیا یہ کالم نویس وطن ِ عزیز میں کبھی میرٹ پہ پکڑا ہی نہیں گیا؟ اِس پہ انگریزوں کی طرح پہلے تو مَیں سوال کی تعریف کروں گا کہ ’گُڈ کوئسیچن‘، پھر اُنہی کی طرح گزارش ہو گی کہ جواب ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ دونوں میں ہے۔ پہلے واقعہ پر، جو سوا چار سال قبل ہوا، مَیں دوبارہ اقبالِ جرم کرتا ہوں۔ اُن دنوں ٹریفک کا نظام پڑھاکو بچوں کے پاس آ تو چکا تھا، مگر شیرشاہ سوری کی تعمیراتی خدمات کو مات دے کر جیل روڈ کو سگنل فری قرار دینے کی کوشش ابھی نہیں ہوئی تھی۔چنانچہ ایک صبح شادمان مارکیٹ سے آتے ہوئے مَیں نے جیل روڈ پر نہر کے کنارے سبز اور سرخ لائٹ کے درمیان یونیورسٹی کیمپس کی طرف موڑ کاٹا اور دھر لیا گیا۔چالان پر تاریخ،وقت اور جرم کی دفعہ غلط درج کی گئی، مگر یہ محض ٹیکنکل اعتراض ہے۔
دو برس پہلے نمبر پلیٹ کے سلسلے میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں میرا جواب پھر نفی اور اثبات کے درمیان ہے۔اثبات اِس لئے کہ چالان کی پرچی پر وقت، تاریخ اور جرم کی دفعہ، سبھی اندراجات درست تھے۔ البتہ نفی کا مفہوم سمجھانے خاطر مجھے دو ایک ایسی باتوں کی نشاندہی کرنا ہو گی، جنہیں قانون داں جرم کی شدت کم کر دینے والے عوامل کہا کرتے ہیں۔اول تو کار کی نمبر پلیٹ کا حکومت کی طرف سے جاری شدہ نہ ہونا، میری بجائے حکومت کا قصور شمار ہونا چاہئے کہ ہم نے تو رجسٹریشن کے پیسے کار خریدتے ہوئے جمع کرا دیئے تھے۔دوسرے اِسی سے جڑا ہوا یہ سوال کہ آیا کوئی قانونی ضابطہ کئی برس پہلے سے نافذالعمل تصور ہو سکتا ہے۔ خیر، مَیں نے حقائق و دلائل کی بجائے انسانی بنیاد پہ کہا ’نئی پلیٹ لینا آسان نہیں، فرید کوٹ ہاؤس میں بہت رش ہوتا ہے‘۔ ’سر، کسی کو دے دلا کر کام نکلوا لیں‘۔ یہ تھا جواب، ساتھ ہی زردار مصافحہ اور چالان نامہ۔
امن پسند شہری نے اگلی صبح نیشنل بینک کی قریبی شاخ میں جرمانے کی رقم جمع کرا دی۔ دل سے ایک بوجھ ہٹ گیا۔ اِس سے فارغ ہوتے ہی اگلی منزل تھی ڈرائیونگ لائسنس واپس کرنے والوں کا دفتر۔ کھڑکی پر پہنچ کر رسید دکھائی تو جواب ملا کہ کاغذات ابھی موصول ہی نہیں ہوئے۔ مَیں نے اپنا رُخ پھر سے جائے وقوعہ کی طرف کر لیا، یعنی نہر کنارے وہ مقام جہاں مجھے غلط شکل و شباہت کی نمبر پلیٹ کے الزام میں روکا گیا تھا۔ کئی ایک سارجنٹ ڈیوٹی میں مصروف دکھائی دیئے،لہٰذا اپنے چالان کنندہ کو تلاش کرنے میں دیر نہ لگی۔ میری کتھا سُن کر کار میں ساتھ بیٹھ گئے اور متعلقہ دفتر سے ضبط شدہ ڈرائیونگ لائسنس واپس دِلا کر ہی دم لیا۔انہیں اِس کام میں میرا وقت ضائع ہونے کا افسوس تھا، اِس لئے اصرار کرتے رہے کہ جوس پی کر جاؤں۔ مَیں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کی اور دِل ہی دِل میں اُن کی صحت، ترقی اور خوشحالی کی دُعا مانگی۔
نئے پاکستان میں ای چالان کا سائنسی نظام نافذ ہو جانے کے بعد ہم لائسنس واپس لینے کے لئے جوس پینے اور پلانے کی منزل سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ سچ کہوں تو گزشتہ منگل چالان بانٹنے والا ہرکارہ میرے گھر کے دروازے پہ آ کر رکا تو جرمانہ سے زیادہ قانون شکنی کے ارتکاب کا صدمہ شدت سے محسوس ہوا، لیکن ایک تو اِس بے وردی، مگر باریش اہلکار کی صورت میرے پسندیدہ برطانوی بادشاہ جارج پنجم سے ملتی جلتی تھی، دوسرے اُنہوں نے جو دستاویز میرے حوالے کی، اپنے مندرجات کے لحاظ سے وہ مجھے بہت دلچسپ لگی۔ کار کی رجسٹریشن اور انجن کی بنیادی تفصیل، ملکیتی حوالہ جات سبھی کچھ درست ۔ مالکن کے طور پر بیگم صاحبہ کا نام درج تھا اور اُن کی ولدیت کے خانے میں لکھا تھا ’زوجہ شاہد ملک‘۔ مَیں اسے غلطی کی بجائے محض ایک چُوک سمجھوں گا جو بے انصافی پہ منتج نہیں ہو سکتی۔
اب پنجابی میں یہ کہنے کو دل چاہ رہا ہے کہ ’لَو جی، ہُن ای چالان وصول ہوندا اے‘۔ جارج پنجم، جنہوں نے میرے چالان سے ملتے جلتے کاغذات کا ایک تھیلا اپنی موٹر سائیکل کے ہینڈل سے لٹکا رکھا تھا، خوش دلی سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گئے۔ مَیں نے اُتنی ہی خوش دلی سے مبینہ جرم کے کوائف پہ غور شروع کیا۔ کاغذ پہ ٹریفک کیمرے کی کھینچی ہوئی چار تصویروں کے عکس تھے، جن پہ دن بارہ بج کر چون منٹ کا ٹائم تو پڑھا جا رہا تھا، سیکنڈ کے اعداد مجھ جیسے عینکو کے لئے مطلوبہ حد تک صاف دکھائی نہ دیے۔ خیر، جب یہ سمجھ میں آ گیا کہ تصاویر کی ترتیب گھڑی کی سوئیوں کے مطابق ہے تو مَیں نے رائے حسنین طاہر کے فوجداری جرائم کی تفتیش پر مبنی ٹی وی پروگراموں کی طرح متعلقہ منظر نامہ کو ذہن میں ’ری کنسٹرکٹ‘ کرنا شروع کر دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ نظر کے بر عکس حافظہ تفصیلات تک ساتھ دے رہا تھا۔
پہلا نکتہ تو یہ کہ وقوعہ پندرہ اکتوبر کا ہے جو بندہٗ ناچیز کی سالگرہ کا دن ہے۔ انصاف پسند ذہن نے کہا کہ یہ محض اتفاق ہے، جو مقدمے کے حقائق پہ اثر انداز نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ اُس روز مَیں اپنی خوشی سے منفرد مورخ اور جانے پہچانے اُستاد ڈاکٹر خرم قادر کی اردل میں تھا۔ پہلے گلبرگ کے مین پوسٹ آفس گئے، وہاں سے شادمان مارکیٹ، پھر چائنا چوک کے پاس اپنے وقت کے ایک جید قانون داں کے گھر۔ اگلی منزل تھی لاہور جم خانہ جہاں ایک دوست لنچ پر خرم صاحب کے منتظر تھے۔ ہم جیل روڈ سے نہر کے ساتھ چلتے ہوئے فیض احمد فیض انڈر پاس کے قریب سڑک کے اوپر سے کینٹ کے رخ پہ دائیں طرف مڑ گئے۔ یہیں تصویر میں مجھے اشارہ کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اب غلطی مانے بغیر کوئی چارہ نہیں، مگر دل میں تمنا بھی ہے کہ کاش، کیمرے کی آنکھ رات گئے سرخ بتی پر زیادہ رکنے والی کاروں کی تصویریں بھی محفوظ کرے۔ بیگم کا کہنا ہے کہ اِس طرح آپ کا ہمیشہ فرسٹ آنے کا شوق پورا ہو جائے گا۔