الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم

 الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم
 الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم خانہ کعبہ کے معروف اور سینیئر خطیب و امام ہیں اور دنیا کے ان چند قرا میں شامل ہیں جن کی پرسوز آواز میں قرآن پاک کی تلاوت پوری دنیا میں گھر گھر سنی جاتی ہے اور خصوصا رمضان کے دنوں میں ان کے پرسوز لہجہ میں تلاوت کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا جاتا ہے۔  مسجد حرم کے دس سے زائد آئمہ کرام میں الشیخ سعود الشریم کا درجہ دو آئمہ الشیخ صالح الحمید اور الشیخ عبدالرحمن السدیس کو چھوڑ کر باقی سب سے بلند ہے۔ ان کے بارے میں حرمین الشریفین اتھارٹی کے ڈائریکٹر الشیخ عبداالرحمن السدیس جو کہ خود بھی مایہ ناز قاری ہیں وہ کہتے ہیں کہ الشیخ سعود الشریم جتنی پرسوز آواز میں تلاوت کرتے ہیں ان جیسی تلاوت کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم64 کو سعودی دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی تعلق نجد کے شہر شقرا  کے قحطان قبیلے سے ہے۔ ان کے دادا محمد بن ابراہیم الشریم سعودی عرب کی بادشاہت قائم ہونے سے قبل 1900 میں شقرا کے تین سال تک گورنر بھی رہے۔ ان ہی کی نسبت سے اب ان کا خاندان الشریم کہلاتا ہے۔شیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم نے ابتدائی تعلیم ریاض سے حاصل کی اور شیخ کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے قرآن پاک اپنی مدد آپ کے تحت خود سے حفظ کیا اس کیلئے کسی قاری کے پاس نہیں گئے اور نہ ہی کسی مدرسے میں داخلہ لیا۔ ریاض ہی کی ایک مسجد سے تراویح کی امامت سے قرآت کا سلسلہ شروع کیا جو آج چالیس سال گزرنے کے باوجود جاری ہے۔جامعہ امام محمد ابن سعود سے گریجوایشن کی ڈگری لی۔

جامعہ ام القری مکہ مکرمہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔پی ایچ ڈی میں ان کے مقالے کا عنوان المسالک فی المناسک تھا۔ اس مقالے کے نگران اعلی سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز آل شیخ تھے۔ان کے اس مقالے کو کتابی شکل دی گئی اور یہ علمی حلقوں میں بڑا معروف ہوااور نصاب کی کتابوں کا حصہ ہے۔ شیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم نے، الشیخ عبد العزیز بن باز،الشیخ عبد العزیز بن عقیل،الشیخ عبد الرحمن البراک، الشیخ عبد العزیز الراجحی اورالشیخ  صالح بن فوزان جیسے جید اساتذہ کرام سے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ 1410ھ  بمطابق عیسوی کلنڈر 1988میں الشیخ الشریم ہائر انسٹی ٹیوٹ آف جسٹس میں مدرس کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔1989 مطابق 1411 ہجری انہیں اس وقت کے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے حرم شریف میں امام و خطیب مقرر کیا۔ حرم میں امام و خطیب مقرر ہونے سے قبل ہی وہ ریاض میں اپنی تلاوت کی وجہ سے معروف ہو چکے تھے۔ اسی برس انہیں حرم شریف میں درس و تدریس کی خدمات ا نجام دینے کی اجازت دی گئی۔الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم خانہ کعبہ میں امامت وخطابت کے فرائض کے ساتھ ساتھ ام القری یونیورسٹی کی شریعہ فیکلٹی میں ڈین اور استاد فقہ کی حییثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ الشیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم عربی کے مشہور شاعر سلیمان بن الشریم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ خود بھی ایک مایہ ناز شاعر ہیں اور ان کے کئی شعر زبان زد عام ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے اپنے استاد الشیخ ابن بازرحمہ اللہ کی وفات پر جو مرثیہ کہا وہ عرب دنیا میں بہت معروف ہے۔شیخ سعود الشریم عالم و قاری ہونے کے ساتھ بہترین شاعر، ادیب، خطیب اور مصنف بھی ہیں۔ شیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم کی مختلف دینی موضوعات پر 13 کتابیں چھپ کر علم والوں کی پیاس بجھا رہی ہیں جبکہ ابھی ان کی کئی کتابیں زیر طبع ہیں۔ حرم شریف میں ان کے دیئے گئے خطبات بھی چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔حال ہی میں شیخ ڈاکٹر سعودبن ابراہیم الشریم کے حرم مکی میں دیئے گئے خطبات پر مشتمل کتاب کا اردو ترجمہ کیا گیا۔اس حوالے سے پیغام نیٹ ورک کے زیر اہتمام امام کعبہ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم کے خطبات حرم کے اردو ترجمے کی تقریب رونمائی لاہور میں منعقد ہوئی۔صدارت سینیٹر پروفیسر ساجد میر اور سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے کی۔ جبکہ اس تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید احمد المالکی تھے. سعودی سفیر نے کہا حرم کے خطبات کی نشرواشاعت بہت مفید کام ہے۔

اسے عام کرکے پیغام نیٹ ورک نے عظیم دعوتی فریضہ انجام دیا ہے۔ سعودی عرب اورپاکستان کا رشتہ لازوال دوستی کی صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔پاکستان اور سعودی عر ب مل کر عالم اسلام کی ترقی واستحکام کے لیے مل کرکام کررہے ہیں۔ان کے خطبات پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے خطبات میں جدید زمانوں کے مسائل کو بھی موضوع بحث بنایا ہے حتی کہ کرپشن جیسے اہم مسئلے پر بھی وہ خطبات دے چکے ہیں۔ خطبات کے اردو ترجمہ پر مشتمل یہ کتاب ان کے 2012 سے 2021 کے دوران حرم مکی میں دیئے گئے خطبات کا مجموعہ ہے جو اردو جاننے والے لوگوں کیلئے علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو گی۔ہمارے پاکستانی علماکو بھی ان کی اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے تا کہ جدید مسائل کو بھی موضوع بحث بنا کر لوگوں کی دینی اصولوں کے مطابق رہنمائی کی جا سکے۔

مزید :

رائے -کالم -