مذاکرات، مشاورت سے معاشرے میں عدم برداشت پر قابو پایا جا سکتا ہے: ثمینہ علوی
اسلام آباد (این این آئی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ اور خاتون اول بیگم ثمینہ عارف علوی نے کہا ہے ہمیں اپنے معاشرے سے انتہا پسندی و عدم برداشت ختم کرنے کیلئے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، مذاکرات اور مشاورت ہی سے ہم معاشرے میں عدم برداشت پر قابو پا سکتے ہیں، ان تمام مسائل کا حل کلام الٰہی اورسرکاردو عالم ؐ کی سیرت طیبہ میں موجود ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو ”بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں معاشرے میں عدم برداشت“کے موضوع پر سیرت نبی ؐ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بیگم ثمینہ علوی نے اس اہم موضوع پرسیرت کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا اہم سماجی مسئلہ معاشرے میں عدم برداشت کوموضوع بنانا خوش آئند ہے، امید ظاہرہے ایسی کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھا جائیگا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیرت طیبہ ؐ اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی دی جا سکے اور وہ اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ انہوں نے کہا ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا“،اس آیت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دو باتیں واضح کردیں،یعنی ہمارے لیے پسندید ہ اور مکمل دین ِ اسلام کوقراردیا،تو اسکا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام ہمیں نہ صرف ایمان، عقائد اور عبادات اورمعاشرت کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی میں دین سے رہنمائی لیں، ثمینہ علوی نے کہا مسلم امہ کو عدم برداشت جیسے بڑے مسئلے کا سامنا ہونا لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اسلام تو سلامتی کا دین ہے،ہمارے معاشروں میں انتہا پسندی و دو سروں کے نظریات و خیالات پر انتہاپسندانہ رد عمل دیکھنے کو ملتے ہیں، پاکستان کو انتہا پسندی و دہشت گردی کی وجہ سے کتنی بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا،ہم سب اس سے بخوبی آگا ہیں۔ دہشت گردوں نے مملکت خدادا د کی مساجد میں نمازیوں، سکولوں میں بچوں اور دیگر جگہوں پر عام لوگوں کو نشانہ بنایا، اگرچہ ہم سب نے مل کر دہشت گردی کو شکست تو دیدی، مگر معا شرے سے انتہا پسندی و عدم برداشت ختم کرنے کیلئے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، اس کیلئے ضروری ہے ہم سب علم حاصل کریں اورجو سیکھیں اس پر عمل پیراہوں اور د وسروں تک ضرور پہنچائیں، عدم برداشت کو روکنے کیلئے اسوہ حسنہ ؐ پر عمل کرنا ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐکو اخلاق کا بہترین نمونہ قرار دیا ہے، مگر ہمارے معاشرے کا منفی پہلو ہے کہ جو شخص نرم مزاج اور بہتر اخلاق کا ہو تو اسے کمزور تصور سمجھا کیا جاتا ہے،انہوں نے کہا بہت سے مسائل شروع ہی الفاظ کے انتخاب سے ہوتے ہیں، اگر ہم اپنی گفتگو کو بہتر کرلیں تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنے، درگزر سے کام لینے کی ضرورت ہے،یعنی ہم حضورؐکی طرح اپنے اردگرد کے لوگوں کی غلطیوں کو معاف، درگزر کریں، اپنی تنقید میں تمیز کا دامن کبھی نہ چھوڑیں، دل آزادی بچیں، نرمی سے بات کریں، لوگوں کو جوڑیں اور ان میں محبت پیدا کریں، جس سے نہ صرف نظام میں بلکہ قومی سطح پر اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی پیداہوگی۔ اسی طرح خاندان کی سطح پر بھی مشاورت و بات چیت سے امور کو زیادہ احسن انداز میں چلایا جا سکتا ہے، یہی اصول ہمارے معاشرے کے دیگر اداروں کیلئے بھی ہے وہ اپنے اندر مشاورت کے کلچر کو فروغ دیں۔ مذاکرات و مشاورت ہی سے ہم معاشرے میں عدم برداشت پر قابو پا سکتے ہیں۔
ثمینہ علوی