سابق ڈپٹی کمشنر کابیٹا اغواء، کیس کی سماعت28اکتوبر تک ملتوی کرنیکاحکم

 سابق ڈپٹی کمشنر کابیٹا اغواء، کیس کی سماعت28اکتوبر تک ملتوی کرنیکاحکم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 
 ملتان(خصو صی  رپورٹر)انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت ملتان نے سابق ڈپٹی کمشنر کے بیٹے کو تاوان کے لیے اغوا کرنے کے مقدمہ میں ملوث حکمران جماعت کے رکن صوبائی اسمبلی ظہیر الدین علیزئی سمیت 13 ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت(بقیہ نمبر39صفحہ نمبر6)
 مزید کارروائی کے لئے 28 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا حکم دیا ہے۔ایک ملزم کے زیر دفعہ 342 کے بیانات قلمبند کرنے باقی ہیں جبکہ باقی ملزمان کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔قبل ازیں فاضل عدالت میں پولیس تھانہ چہلیک کے مطابق مدعی سابق ڈپٹی کمشنر محمد منیر بدر اعوان نے 14 اکتوبر 2015 کو مقدمہ نمبر 643 درج کرایا۔ جس میں موقف اختیار کیا کہ 2005 میں عہدے سے ریٹائر ہوا تو ملزم مدثر چوہدری سے کاروباری تعلقات استوار ہوئے ملزم نے اعتبار کا فائدہ اٹھا کر ایک کروڑ تین لاکھ روپے ہتھیا لیے جس پر کارروائی کی درخواست دی تو ملزم نے رنجش بنالی اور پولیس تھانہ گجرانوالہ کے ایس ایچ او میاں خلیل احمد اور سب انسپکٹر اصغر، عابد رسول سمیت دیگر اہلکاروں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بیٹے کو ایک خاتون کے اغوا کے مقدمہ نمبر 55 زیر دفعہ 365 جو کہ 17 مارچ 2014 کو گجرنوالہ میں درج ہوا تھا بیٹے کو اغوا کرلیا جس کی رہائی کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے طلب کیے گئے بیٹے کو جوڈیشل حوالات سے پولیس مقابلے میں قتل کی دھمکیاں دی گئی جس پر سائل نے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے۔یہ رقم حکمران جماعت کے رکن صوبائی اسمبلی ظہیرالدین علی زئی کے اکانٹ سے منتقل ہوئی،ملزمان نے واقعے کو لین دین کا معاملہ قرار دینے کے لیے کھیل رچا تھا، فرضی مدعی مقدمہ نے ایڈیشنل سیشن جج وزیر آباد کی عدالت میں ضمانت ہونے پر اعتراض نہ ہونے کا بیان دیا جس پر بیٹے کو 15 اپریل 2014 کو رہائی ملی، بعد ازاں ایم پی اے نے 30 لاکھ روپے واپس بھی کیے تھے۔ مقدمہ میں محمد مبشر،رانا جہانزیب راجپوت عرف ٹیپو، احتشام علی، محمد یسین ناگرہ،سابق ایس ایچ او میاں خلیل احمد، سابق سب انسپکٹرز عابد رسول اور اصغر علی، محمد مدثر چوہدری، ناصر علی ناگرہ،میاں فرزند علی گوہر،زاہد پٹھان، یاسمین احمد نامزد ہیں۔ اب بیٹا بااثر ملزمان کے خوف سے بیرون ملک آسٹریلیا رہائش پذیر ہے۔ جس کا بذریعہ سکائپ بیان ریکارڈ کیا جاسکتا ہے اور متعلقہ اداروں ہوم ڈیپارٹمنٹ سمیت سفارت خانوں سے مدد بھی لی جاسکتی ہے۔
اغواء