کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟

میں آج ”رشیا ٹو ڈے“ (RT) کی ایک خبر دیکھ رہا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ صوبہ کرسک (Kursk) کے ان اضلاع کو جو یوکرائن کی سرحد سے قریب ہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ آنے والی شدید جنگ کے لئے تیار رہیں، یوکرائن کی طرف سے ہونے والے آرٹلری حملوں سے بچنے کی ہر ممکن احتیاط کریں، گھروں کے آنگنوں میں اور آس پاس کے علاقوں میں گہری خندقیں کھود لیں اور ان میں اشد ضروری اشیاء کا ذخیرہ کر لیں۔ روس اپنے ان علاقوں میں یہ انتباہ بار بار دہرا رہا ہے جو یوکرائن کے سرحد کے قریب ہیں اور جہاں یوکرائنی توپ خانہ گولہ باری کرتا رہا ہے،اپنی دور مار توپوں سے ان روسی علاقوں پر گولے برساتا رہا ہے اور ان کا کافی جانی و مادی نقصان کرتا رہا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ پاکستان کی بیشتر آبادی کو نہ تو یہ معلوم ہے کہ کرسک کہاں واقع ہے اور نہ یہ پتہ ہے کہ وہاں خندقیں کھود لینے کا مطلب کیا ہے اور نہ ہی اس بات کی خبر ہے کہ حالیہ 8ماہ میں اس ریجن میں لڑائی کی صورتِ حال کیا رہی ہے، کتنے روسی یہاں مارے گئے ہیں، کتنے ٹینک برباد ہوئے ہیں اور کتنی توپوں کو ناکارہ بنایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار اور اس تفصیل سے ہم پاکستانیوں کا کیا تعلق؟ لیکن جب ایک سابقہ سپرپاور (روس) جس کے ترکش میں ہزاروں جوہری بم رکھے ہوں اپنے حریف (یوکرائن) کو یہ دھمکی دے کہ وہ اپنے دفاع میں تمام طرح کے اسلحہ جات سے کام لینے سے دریغ نہیں کرے گی تو اس کا مطلب جوہری جنگ ہی ہوتا ہے۔ میں نے کل کے کالم میں بھی یہی استدلال کیا تھا کہ یورپ کے اس حصے میں جنگ کی جو آگ بھڑک رہی ہے اس کا ”آخری معرکہ“ زیادہ دور نہیں رہ گیا اور جب یہ معرکہ ایک بار شروع ہو گیا تو دنیا کے وہ سات ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے اور جن کے پاس اپنے جوہری اثاثے (بم اور میزائل) بھی ہیں، اس معرکے کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ باقی دنیا کے 192غیر جوہری ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی اس جوہری جنگ کی فال آؤٹ کا نشانہ بنیں گے۔ فی الحال ہمارے کسی دانشور کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ آنے والی اس مہلک ترین گھڑی پر بھی اپنے ہم وطنوں کو کچھ آگاہی دے۔
رشیا ٹو ڈے کی اس خبر میں جب میں نے ”کرسک“ کا نام پڑھا تو 1965ء کی پاک بھارت جنگ یاد آئی۔ اس 17روزہ جنگ میں سب سے زیادہ خونریز اور شدید معرکہ جو لڑا گیا وہ سیالکوٹ محاذ پر چونڈہ کی ٹینکوں کی لڑائی کا معرکہ تھا۔ 6ستمبر 1965ء کو یہ جنگ شروع ہوئی تھی اور 23ستمبر 1965ء کو جنگ بندی عمل میں آ گئی۔ ہار جیت کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ بعد میں ایک دو سال تک میڈیا پر اس جنگ کے مختلف معرکوں کی یادیں تازہ کی جاتی رہیں …… اور پھر خاموشی چھا گئی…… اور آج تک وہی خاموشی برقرار ہے…… جنگ کے ان 17ایام میں چونڈہ کی لڑائی کو ہم نے دنیا کی سب سے بڑی ”ٹینک بیٹل“کا نام بھی دے دیا تھا۔ مبالغہ آمیزی تو ہمارا پرانا وتیرہ ہے۔ چونڈہ میں ٹینکوں کی جو لڑائی پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئی وہ اس لڑائی سے بہت کم خوں آشام تھی جو جولائی، اگست 1943ء میں روس کے اس علاقے میں لڑی گئی جس کا نام کرسک ہے۔یہی نام پڑھ کر مجھے ان ایام کی یاد آئی جو آج سے 79برس پہلے کرسک کے اس مقام پر بپا ہونے والے معرکے کی یاد تھی۔
اس لڑائی میں ایک طرف سٹالن کا روس تھا جس کی سرزمین (کرسک) پر یہ معرکہ لڑا گیا اور دوسری طرف ہٹلر کا نازی جرمنی تھا۔ طرفین کی افواج کی تعداد لاکھوں (17لاکھ) میں تھی، ٹینکوں کی تعداد ہزاروں (12ہزار) میں تھی اور طیاروں کی تعداد بھی ہزاروں (6ہزار) میں تھی…… اس معرکے میں طرفین کا جانی نقصان لاکھوں (4لاکھ) اور ٹینکوں توپوں اور طیاروں کا نقصان ہزاروں (16ہزار) میں تھا…… یہ اعداد و شمار دماغ چکرانے والے ہیں۔ قارئین اس لڑائی کی آپریشنل تفصیلات (نقشوں اور خاکوں کی مدد سے) پڑھیں تو حیران ہوں گے کہ اس لڑائی کا سکیل کتنا بڑا تھا۔ اور اگر یہ بات بھی دھیان میں رکھیں کہ ”کرسک کی لڑائی“ دوسری عالمی جنگ کی درجنوں خونریز ترین لڑائیوں میں سے صرف ایک تھی تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ دوسری عالمی جنگ کس سکیل کی تھی!
مقامِ افسوس ہے کہ اس 6سالہ جنگ کی کوئی مختصر ملٹری ہسٹری بھی اردو زبان میں نہیں لکھی گئی جبکہ انگلش، رشین، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں اس پر ہزاروں کتابیں موجود ہوں۔
صدر پوٹن نے کرسک کے باسیوں کو آنے والی جنگ کے لئے تیار رہنے کا جو حکم نامہ جاری کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی کمانڈروں کے نزدیک آنے والی جنگ کے دو مرحلے ہوں گے۔ پہلا مرحلہ روائتی جنگ (Conventional War)پر محیط ہوگا جس میں دوسری عالمی جنگ کی طرز پر مختلف سیکٹروں / محاذوں پر لڑائیاں لڑی جائیں گی۔ ایک طرف روس ہوگا اور دوسری طرف یورپ اور امریکہ ہوگا۔ ظاہر ہے روس اس روائتی جنگ میں بہت تھوڑے دنوں میں اپنا اسلحہ اور گولہ بارود پھونک کر فارغ ہو جائے گا…… اور اس کے بعد جوہری دہلیز کراس کرنے کی طرف بڑھنے پر مجبور ہو گا۔ ماہرینِ جنگ سوال کرتے ہیں کہ فریقین جب اپنا روائتی ترکش جلد خالی کر بیٹھیں گے توپھر کیا ہوگا…… اور اگر جوہری دہلیز پار کرنے کی نوبت آئی تو اس میں پہل کون کرے گا؟ اس موضوع پر آج کل بہت سا مواد فارن میڈیا پر آ رہا ہے۔ گوگل کرکے دیکھ لیں کہ کرسک میں خندقیں کھودنے کے احکامات کا پس منظر کیا ہے!
ہماری دعا ہے کہ یہ تنازعہ زیادہ نہ بڑھے لیکن امریکہ کے سر پر تو یہ خبط سوار ہے کہ وہ تین عشروں سے زیادہ دنیا کی جو واحد سپرپاور بنا ہوا ہے، یہ اعزاز مستقبل میں بھی اپنے پاس رکھے۔ امریکی پینٹاگان میں یہ بحث کئی بار ہو چکی ہے کہ کریملن کو عسکری حوالے سے نیچا دکھانے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں …… شی جن پنگ اگلے 5سالوں کے لئے چین کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ اندریں ایام یہ بحث چل رہی ہے کہ روس اور چین کی ٹاپ لیڈرشپ مل کر امریکہ کو دنیا کی واحد سپریم پاور ہونے کا اذن دے گی یا اس کی مزاحمت کرے گی۔
آج کی دنیا فوجی اور اقتصادی قوت کے اعتبار سے یک قطبی دنیا ہے جبکہ تاریخ عالم یہ بتاتی ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی یونی پولر نہیں رہی، اسے بائی پولر ہونا ہی ہوتا ہے…… اب دیکھنے والی بات یہ رہ گئی ہے کہ آیا یہ دوڑ یک قطبی اور دو قطبی ہونے تک ہی محدود رہے گی یا اس انجام کو پہنچے گی جسے مشرق و مغرب کے عسکری دانشور اور دوسرے غیر عسکری فلاسفہ قیامت کا نام دیتے ہیں! کیا تاریخ، کرسک میں 1943ء والی لڑائی کو دہرائے گی جس میں روس کو نازی جرمنی پر فتح حاصل ہوئی تھی؟…… کیا آج کا روس، آج کی ناٹو کا مقابلہ کر سکے گا؟…… ان سوالوں کا جواب بہت جلد ملنے والا ہے!