پاکستان میں ہر سال40ہزار خواتین کینسر سے جاں بحق
ملتان ( سٹاف رپورٹر)ویمن یونیورسٹی میں کینسر سے آگاہی بارے سیمینارزکا انعقاد کیاگیا، ترجمان کے مطابق کینسر جیسے موذی مرض سے بچاﺅ کے حوالے سے دونوں کیمپسز میں تقریبات منعقد ہوئیں کچہری کیمپس میںپنک ربن ڈے کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی اور سٹالز لگائے گئے . وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے تمام سٹالز کا وزٹ کیا جن میں کھانے(بقیہ نمبر3صفحہ6پر )
پینے کی اشیا، زیورات، کپڑے، پینٹنگز، آرٹ، منہدی اور پودوں کےسٹالز شامل تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عدیلہ سعید، ڈاکٹر حنا علی ، ڈاکٹر سارہ مصدق بھی موجود تھیں۔ اس تقریب کا انعقاد ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کے زیراہتمام کیا گیا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کہا کہ ایشیا میں اس مرض کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 40ہزار خواتین اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان گنوا دیتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہر 9 میں سے ایک پاکستانی خاتون پر اس مرض کا خطرہ منڈلا رہا ہے جن میں زیادہ ترنوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔ اگر ابتدا میں ہی مریض میں اس بیماری کی تشخیص کر لی جائے تو مریض کے بچنے کے 90 فیصد امکانات بڑھ جاتے ۔اس موقع پر ڈاکٹر عدیلہ نے کہا کہ مرض کا آغازچھاتی میں گلٹی بننے سے ہوتا ہے۔دریں اثنا یونیورسٹی کے متی تل کیمپس میں کینسر کی تشخیص اور اس سے بچاو بارےسمپوزیم منعقد ہوا جس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے کی ، جبکہ مہمان اعزاز میں ڈاکٹر میمونہ نورین اور رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ خان تھیں سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے نشترہسپتال کی ڈاکٹر بلوسم نیلم اوریونیورسٹی آف شکاگوکی ڈاکٹر حنا عثمان نے کہا سرطان کی تشخیص صرف علامات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ زیادہ تر علامات عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں مثلا جسم کے کسی بھی حصے میں ورم یا گلٹی کا نمودار ہونا، کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس لینے میں مشکل، نگلنے میں دشواری، وزن میں کمی ،تھکن،جسم میں درد، اسہال یا قبض، مقعد کے راستے خون آنا، جسم پر کسی نئے تِل کا نمودار ہونا یا پرانے تل میں تبدیلی واقع ہونا، زخم اور السر کا ٹھیک نہ ہونا، خواتین کے سینے میں گلٹی پیدا ہونا، بھوک نہ لگنا، رات کوپسینے آنا، پیشاب کرنے کی عادت میں تبدیلی ہونا وغیرہ شامل ہیں۔