” پیرانِ پیر غوث الاعظم سیدنا حضرت شیخ عبدالقاد رجیلانی ؒ “
پیرانِ پیر غوث الاعظم سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ بغداد شریف سے خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒتک اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ سے حضرت بہاﺅالدین ذکریا ملتانیؒ تک تمام بزرگان دین نے رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھاقطبِ عالم حضرت خواجہ سید قطب الدین بختیار کاکی ؒ مہر ولی شریف دہلی میں، نور العارفین با با فرید الدین مسعود گنج شکر ؒپاک پتن شریف میں ،حضرت علاﺅالدین صابر کلیری ؒ کلیر شریف میں اور حضرت نظام الدین اولیاءؒمحبو ب الہی دہلی شریف نے دہلی میںبھی رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔یوں تو شخصیات کو پرکھنے کے دنیا میں کئی پیمانے ہیں ،مگر شہرت عام اور مقبولیت اَنام ایک ایسا پیمانہ ہے جس کے ذریعے گردش ایام اورانقلاب عالم کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی شخصیت کو با آسانی جانچ سکتے ہیں،علماءومشائخ ،ادباﺅ شعرائ،سلاطین وملوک اور اربابِ فنون میں سے کئی لوگ آسمان شہرت کا ستارہ بن کر چمکے اور دنیا پر چھا گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ اُن کی وہ شہرت گھٹتی چلی گئی،البتہ ان میں سے بعض ایسی نام ورہستیاں اور قد آور شخصیتیں ہو گزری ہیں کہ اپنے علم وعمل اور گراں قدر خدمات کی بنا پر لوگوں کے دِلوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی محبت وعقیدت بڑھتی جاتی ہے،اس نکتہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو صوفیہ ومشائخ کے تمام سلاسل میں سب سے پہلے جس عظیم ہستی پر نگاہ پڑتی ہے وہ قطب الاقطاب ،شیخ شیوخ العالم ،محبوب سبحانی،غوث صمدانی سید عبدالقادر جیلانیؓ کی ذات گرامی ہے ،جن کی عظمت اور عوام وخواص کے دِلوں میں محبت وعقیدت ،نو سوسالہ طویل عرصے کے حوادثات اور انقلاب کے باوجود قائم ودائم ہے،بلاشبہ یہی وہ عظیم لوگ ہیں جن کی محبت وعظمت کے جھنڈے انسانی قلوب میں گڑے ہوئے ہیں،اور جن کی رفعتوں کے افسانے آفتاب وماہتاب کی زبانوں پر ہیں۔
خدا رحمت کندایں عاشقاں پاک طنیت را
اسم گرامی ”عبدالقادر ،کنیت، ابو محمد اور لقب محی الدین“قرار پایا،زبان خلق سے غوث اعظم ،محبوب سبحانی،قطب ربانی اور پیران پیر، ایسے القابات نذرگزارے ،جو اپنی واقعیت اور حقیقت کی بناءپر دایک طرح کا نام ہوگئے، آپ 470ہجری میں طبر ستان کے نواحی قصبے جیلان میںپیدا ہوئے ،اسی کو گیل اور گیلان بھی کہتے ہیں،بعض محققین کے مطابق جیلان یا گیلان سارے علاقے کا نام تھا، جس میں کئی قصبے شامل ہیں،اِن محققین کے نزدیک آپ کی پیدائش قصبہ ”نیف“میں ہوئی ، نسبی سیادت دونوں طرف سے حاصل تھی، والدِ گرامی کی طرف سے سلسلئہ نسب سیدناامام حسن ؓ تک پہنچتا ہے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے سیدنا امام حسینؓ تک ،گویاآپ کا سلسلئہ نسب سلسلتہ الذہب ہے،نسب عالی یوں ہے”محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن ابی صالح دوست موسیٰ بن ابی عبداللہ بن یحی الزاہدبن محمد بن داو_¿د بن موسیٰ الجون بن عبداللہ بن المحض بن الحسن المثنی بن الحسن بن علی بن ابی طالبؓ “
شیخ عبداللہ جیلانی ؒ کا بیان ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ کے دست مبارک پر پانچ ہزار سے زیادہ یہودی اور عیسائی مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زیادہ قزاقوں ، فاسقوں ، بدکاروں اور بد عقیدہ انسانوں نے توبہ کی۔ بلا شبہ اولیاءاللہ عزوجل نبیوںکے وارث اور دین کے پاسدار ہوتے ہیں۔ حضور غوث پاک ؒ نے ایک مرتبہ نبی پاک کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام فر ما یا یہ نیاز اس قدر مقبول ہوئی کہ آپ ؒ نے ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو یہ فاتحہ مقررفر ما دی آہستہ آہستہ یہ عمل آپ کی طرف منسوب ہو گیا اور حضور غوث پاک ؒ کی گیارھویں کہلانے لگا حقیقت میں گیارھویں شریف کا ختم حضور غوث پاک ؒ کی روح پاک کو ایصال ثواب کا ذریعہ ہے ربیع الثانی میں ہی چونکہ آپ ؒ کا وصال ہوا اور عرس بھی آپ کا اسی ماہ منا یا جاتا ہے لہذا اسی نسبت سے یہ بڑی گیارھویں شریف کہلائی جاتی ہے۔ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ نے گیارہ ربیع الثانی 561 ءمیں انتقال فر ما یا وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 91 سال تھی بغداد شریف میں آسودہ خاک ہوئے پورے ربیع الثانی کے مبارک مہینے میں ملک کے مختلف شہروں میں گیارہویں شریف کی تقریبات ہوتی ہیں پشاور میں بھی ان با برکت محفلوں کا انعقاد پیر و مرشدی رئیس الفقراءحضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با باؒکے صاحبزادے پیر سید عنایت علی شاہ بادشاہ موتیاں والی سرکار سجادہ نشین دربار عالیہ تمبر پورہ شریف پشاور اور حضرت مو لا نا سید محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی ؒیکہ توت شریف کے طفیل سے بڑے احترام کے ساتھ ہو تا ہے۔حضرت مو لا نا سید محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی ؒیکہ توت شریف میں ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد گیارہویں شریف کا ختم ہوتا ہے جبکہ ربیع الاول کے مہینے کی یکم تاریخ سے لے کربارہ تاریخ تک روزانہ یہ ختم ہوتارہتا ہے ۔
٭٭٭
شیخ الاسلام قطب ہمدانی محی الدین والاسلام