سیاست میں کرکٹ کی طرح اگر مگر شروع

کرکٹ ورلڈکپ کے مقابلوں میں اگر، مگر کا حساب شروع ہو گیا اور شائقین اس حوالے سے نئی امیدیں لگا رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ملک کی سیاست میں ہو رہا ہے۔محبتوں والوں کے لئے میدان صاف نظر آ رہا ہے اور مخالفین نہ صرف تلملا رہے ہیں بلکہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، ویسے میں گزارش کروں کہ ہمارے سیاست دان بڑے بڑے ذہین بھی ہیں اور وہ دور تک بہت کچھ دیکھ لیتے اور دیکھ رہے ہیں، میں ان سب کی خدمت میں عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ وقت کی ٹھوکروں نے عوام کو بھی بہت عقل دے دی ہے اور وہ انتہائی ہوشیاری کا مظاہرہ کررہے ہیں، ان سے جب سنجیدگی سے گفتگو ہو تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر وضاحت سے حالات کا تجزیہ کر لیتے ہیں، ابھی گزشتہ روز کی بات ہے کہ محفل یاراں میں بات ہوئی تو ایک دوست نے کہا،کیا کسی کو شک ہے کہ اس ملک پر آئندہ حکومت کس کی ہوگی اور کون وزیراعظم ہوگا، ان دوست کا کہنا تھا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں اور سیاست دان کا انداز ہی مستقبل کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ ان کے مطابق سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی واپسی کا انداز اور ان کی اپنی بدن بولی بتا رہی ہے کہ وہ بہت مطمئن ہیں اور ان کو اپنے مستقبل کا یقین ہے جبکہ یہی بات دوسری جماعتوں خصوصاً پیپلزپارٹی کے لئے تکلیف دہ ہے اکثر اوقات بعض حضرات کے عمل کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اور ایسے حضرات کو بیرومیٹر کا درجہ دیا جاتا ہے کہ وہ جدھر کا رخ کریں حالات ادھر ہی مہربان ہوتے اور ان کو کامیابی کا یقین ہو تو وہ اپنا رخ تبدیل کرتے ہیں اور اس وقت ایسے بہت سے بیرومیٹر ابھی سے تیاریاں کر چکے اور اکثر ابھرتے رخ کی طرف منہ کرکے چل بھی پڑے ہیں۔
پاکستان کی سیاست جتنی واضح ہو اتنی ہی گنجلک بھی ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کئی سیاسی جماعتیں خود کو محبوب اور کامیاب سمجھ رہی ہیں جبکہ واضح طور پر ابھی یہ اندازہ نہیں لگایا جا رہا کہ کنگز پارٹی کون سی ہے، اس وقت دو سے زیادہ جماعتیں خود کو ایسا سمجھ رہی ہیں اور بیرومیٹرز کا رجحان بھی اسی طرف ہے وہ دیکھ رہے ہیں کہ اونٹ کا رخ کس طرف ہے اور وہ کس کروٹ بیٹھے گا لہٰذا انہوں نے کمر کس لی اور جونہی ان کا اندازہ درست ہونے لگا وہ ادھر لڑھک جائیں گے۔ اس وقت سیاسی ریس میں دو جماعتوں کی طرف نظر اٹھ رہی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ہی کنگز پارٹی ہوگی اگرچہ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید اگلا دور بھی اتحادی ہو اور اس کے لئے پسندیدہ جماعتوں کا اکٹھ کیا جائے۔
ہمارے وہ دوست جو اقتدار کے ایوانوں میں گردش کرتے اور نبض پر بھی ان کا ہاتھ ہوتا ہے وہ اب واضح طور پر محمد نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں جبکہ خود مسلم لیگ (ن) کے حضرات کا یقین ہے کہ ان کا ووٹ بینک بیدار ہو گیا اور وہ اب واپس آ گیا جس کی بناء پر مسلم لیگ (ن) کو اکثریت مل جائے گی جبکہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ ایک بار پھر سے 2018ء کا وقت سامنے ہے اور تب والی حکمت عملی ہی دہرائی جائے گی اور استحکام پاکستان پارٹی کا وجود اس کی شہادت دیتا ہے کہ یہ جنوبی پنجاب محاذ کے طور پر اپنے فیصلے کرے گی اور اپنے لئے ”معقول“ حصہ لے کر مسلم لیگ (ن) کی تائید کر دے گی اور یوں اقتدار کا ہما پھر سے مسلم لیگ (ن) کے لئے مبارک ثابت ہوگا۔
ایک بات میں نے عرض کی تھی، اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، اگرچہ سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، اسحاق ڈار اور سابق وزیراعظم محمد شہباز شریف سمیت سب کو یقین ہے کہ اگلے وزیراعظم محمد نوازشریف ہی ہوں گے کیونکہ ان کے یقین کے مطابق دور اقتدار میں انہوں نے جو خصوصی انتظامات کئے ان میں عمر بھر والی نااہلی ختم کرنے کا بھی انتظام کر لیا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی اور یوں میاں محمد نوازشریف اب اہل ہیں، لیکن مخالفین خصوصاً تحریک انصاف والوں کی رائے بالکل مختلف ہے اور یوں یہ معاملہ اب عدلیہ ہی حل کرے گی۔
میں ان دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کا ہم نوا ہوں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں سکون ہو اور امن و امان برقرار رہے اور ان کے خیال میں یہ اس طرح ممکن ہے کہ عام انتخابات صاف شفاف کرا دیئے جائیں اور جو جیت جائیں ان کو فیصلہ کرنے دیں کہ کون معاشی اور اقتصادی حالات کو بہتر سمجھتا ہے اور ایسے ہی حضرات کو موقع دیا جائے کہ وہ اب بگڑے حالات کو سنبھال لیں۔ جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے تو ہم طویل عرصہ سے یہی گزارش کرتے چلے آرہے ہیں کہ سب اپنے اپنے تحفظات اور مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی اور خوشحالی کے لئے مل بیٹھیں اور اتحاد کے ساتھ حالات کو سنبھالیں، اگرچہ برسرزمین جو حالات ہیں وہ سب سیاست دانوں اور دانشور تجزیہ نگاروں سے بالاتر ہیں کہ عوام اب ذہنی طور پر بہت پختہ ہو چکے تاہم منتشر ہیں، ایک امر کا خیال رہے کہ ان عوام کو خود سیاست دانوں کے رویے ہی نے پھر سے باور کرا دیا ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں، نگران حکومتوں کی طوالت اور متعدد منصوبوں کی پیش رفت سے یہ باور کرایا گیا کہ سیاست دان ہوتے تو ایسا نہ ہوتا،حیرت انگیز طور پر بجلی چور اور گیس چور یوں پکڑے جا رہے ہیں جیسے یہ ملک اور اس کے عوام سبھی چور ہیں۔ ہر روز سینکڑوں لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے البتہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چوری میں معاونت کرنے والے اہل کار ہی یہ سب پکڑ رہے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں، چند تبادلے اور تھوڑی سی غلطیاں بتائی جا رہی ہیں، البتہ ڈالر کو نیچے لانے، سمگلنگ روکنے اور غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں غیر ملکوں کو ملک سے ان کے وطن واپس بھیجنے اور جعلی پاسپورٹوں جیسے سخت اقدامات بھی یہی تاثر دیتے ہیں کہ سیاست دان یہ نہ کرتے کہ وہ تو خود ملوث ہوتے ہیں۔
میں فی الحال حتمی طور پر تو کوئی رائے نہیں دیتا، لیکن آثار یہی ہیں کہ اب پھر ایک کمزور حکومت ہو گی کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملے گی اور چند جماعتیں مل کرمخلوط حکومت بنائیں گی اور جو جماعت ان میں سے زیادہ نشستوں کی حامل ہوئی وہی حکمران ہوگی جبکہ اپوزیشن بھی مضبوط ہوگی، ابھی بہت وقت ہے، تیل دیکھئے اور تیل کی دھار؟