رنگ میں بھنگ کس نےڈالا، کون انجانے میں مارا گیا اور کس کو بے آبرو ہو کر رُخصت ہونا پڑا ؟حفیظ اللہ نیازی نے کھل کر "کہانی " بیان کر دی

لاہور ( خصوصی رپورٹ ) رنگ میں بھنگ کس نےڈالا، کون انکانے میں مارا گیا اور کس کو بے آبرو ہو کر رُخصت ہونا پڑا ؟ سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے کھل کر "کہانی " بیان کر دی۔ "جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان "وطن عزیز کا ڈراؤنا خواب" میں لکھا ہے کہ بے شُمار موضوعات، ہفتہ بھر کے اہم واقعات بھی، نواز شریف کی وطن واپسی پر تاریخی جلسہ، تاریخی تقریر بہت کچھ رقم کر گئے، بہت کچھ رقم کرنے کو ۔ سپریم کورٹ کا ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کو ناممکن بنانا اور فیصلے پر فوری عملدرآمد نہ ہونا، تفکرات خدشات بھی ساتھ ساتھ ۔ آنے والے دنوں میں ایسے موضوعات پر طبع آزمائی رہنی ہے۔ آج مملکت خداداد،جہاں موجود، اپنے حکمرانوں کی خرمستیوں کی بدولت ہی تو ہے ۔ جمہوری یامطلق العنان ہر حکمران حصہ بقدرِ طاقت و استطاعت فراخدلی سے ڈالنے میں ہچکچائے نہ شرمائے۔ آج مملکت خداداد کے اصل مجرم کا تعین آسان، قرعہ فال بنام جنرل محمد ایوب خان ہی نکلنا ہے۔ ایک وقت تک یقیناً مجرم جنرل ایوب تھا کہ جب تک جنرل قمر جاوید باجوہ بنفس نفیس پردہِ سیمیں پر جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے۔ آج ایوب خان کے شانہ بشانہ مقام پا چکے۔ جنرل باجوہ کا کریڈٹ، آئین چھیڑا نہ مارشل لاء اور نہ ہی ایمرجنسی یعنی کہ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ... تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ‘‘۔ کسبِ کمال، نواز شریف کو خاطر خواہ ذلیل، رسوا، خوار کر کے نکالا بھی اور پھر اپنی توسیع کا ووٹ بھی لے لیا ۔ساری سیاسی جماعتیں، سارے سیاسی رہنما باجماعت باوضو، وردی اور توسیع مدتِ ملازمت کو فقید ِ المثال پذیرائی میں مستعد رہے۔ ایسابڑا اتفاق رائے جو 1973ء کے آئین پاکستان پر نہ ہو سکا۔ خوش قسمت جب دوسری توسیع کا معاملہ آیا تو’’جمعیت سیاسی مسلمین‘‘ بشمول عمران خان دوسری توسیع ملازمت دینے پر بھی راضی۔ شنید کہ اس دفعہ امریکہ کیساتھ دوسرے ممالک بھی مصر تھے۔ آخری دنوں تو شہباز شریف نے بھی لندن جا ڈیرے ڈالے۔ توسیع کا پروانہ لیے بغیر واپس آنے سے صاف انکاری تھے ۔ عمران خان دو قدم آگے، لانگ مارچ کر ڈالا۔ چشم تصور میں ممکنہ آرمی چیف کی تعیناتی رُک پاتی تو جنرل باجوہ سُرخرو رہتے۔ اس سارے عمل میں جنرل باجوہ نے کمالِ ہوشیاری سے حکومت کو سرنگوں رکھا جبکہ اپنے ایک بااعتماد قریبی ساتھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے حقوق ِملکیت عمران خان کو منتقل کئے تاکہ عمران خان بھی مؤثر طریقہ سے زیر استعمال رہے۔ یہ تو بھلا ہو نواز شریف کاکہ نومبر 2022ء میں رنگ میں بھنگ ڈال دیا ، باجوہ کو بے آبرو ہو کر رُخصت ہونا پڑا ۔
اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ جنوری 2021 ء عمران خان سے طوطا چشمی کی ٹھان لی ۔ مزید توسیع کے بارے میں تفکرات اور خدشات بنتے تھے ۔ صفحہ کو چابکدستی اور کمالِ ہوشیاری سے ایسے پھاڑاکہ عمران خان کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ بعدازاقتدار کتبہ پر لکھا ملا کہ’’موصوف انجانے میں مارا گیا۔‘‘دو رائے نہیں کہ جن اجزائے ترکیبی سے عمران خان حکومت تشکیل پائی، اُسی فارمولا کے تحت عمران خان کو گھر بھیجا جانا تھا۔ 2021 ء میں یہ جب طے ہوا کہ عمران خان کو فارغ کرنا ہے، عدم اعتماد کی تحریک ہی سہارا بننا تھی۔
اپنے کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ دسمبر 2021ءسے یہ بھی عیاں کہ اپوزیشن جنرل باجوہ کے دام میں آ چُکی ہے، تحریک عدم اعتماد لا کر رہے گی۔ سیاسی بانجھ اپوزیشن جماعتوں سے اسٹیبلشمنٹ کی یہ بات بھی طے ہو گئی کہ اقتدار ملنے کے فوراً بعد الیکشن ونیب ریفارمزاور بعد ازاں الیکشن اور نگران حکومت کا قیام ہونا ہے۔مجھے اللّٰہ تعالیٰ سے خیر کی اُمید، مملکتِ خداداد کی قسمت سے کھیلنے والوں کی ان شاء اللّٰہ ’’نہ یہ دُنیا نہ وہ دُنیا ‘‘، پاکستان ان شاء اللّٰہ قائم رہیگا، اسکی قسمت سے کھیلنے والے یقیناً برباد ہونگے ۔ (آمین)