ہم گرداب میں پھنسے ہیں،مقبولیت کسی اور کی ہے جان کسی اور میں ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے : مظہر برلاس بھی کھل کر بول پڑے

لاہور ( خصوصی رپورٹ )سینئر تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس کہتے ہیں کہ ہم گرداب میں پھنسے ہیں، مگر ہمارے چند لوگ حقیقت سے اب بھی آنکھیں چرا رہے ہیں ،مقبولیت کسی اور کی ہے جان کسی اور میں ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ انصاف کی حالیہ لہر کو دیکھ کر آئین اور قانون بھی ششدر رہ گئے ہیں۔
"جنگ" میں اپنے کالم بعنوان "ہم بڑے نہیں ہوتے " میں مظہر برلاس نےلکھا کہ ہم گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، مشکلات میں ہیں مگر ہمارے چند لوگ حقیقت سے اب بھی آنکھیں چرا رہے ہیں۔ یہ غلطی انہوں نے پچاس پچپن برس پہلے بھی کی تھی، اب بھی غلطی کا ادراک نہیں ہو رہا۔ مقبولیت کسی اور کی ہے جان کسی اور میں ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انصاف کی حالیہ لہر کو دیکھ کر آئین اور قانون بھی ششدر رہ گئے ہیں، یقیناً اس سے عالمی رینکنگ میں فرق پڑا ہو گا، خیر ہمیں عالمی رینکنگ سے کیا ہمارا تو اپنا ہی ’’نظریہ ضرورت‘‘ ہے۔ انصاف کی تیز ترین فراہمی کی حالیہ مثالوں نے کئی باتیں یاد کروا دی ہیں۔ ہم سنا کرتے تھے ایک سندھی وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھایا جا سکتا ہے مگر ایسا کسی پنجابی وزیر اعظم کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ حالات نے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل ثابت کیا تو پھر مرحلہ اسمبلیوں کی بحالی کا آ گیا۔ 80اور 90کی دہائی میں58 2 B کی تلوار کا بے دریغ استعمال ہوا، کئی بار اسمبلیاں توڑی گئیں، ہر بار کیس عدالت کے روبرو گیا مگر کسی سندھی وزیراعظم کی اسمبلی بحال نہ ہو سکی خواہ وہ محمد خان جونیجو ہی کیوں نہ ہو۔ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو بحال کیا کرنا تھا ان کیلئے انصاف کے دروازے ہمیشہ بند ہی رہے مگر 90کی دہائی میں نواز شریف کی حکومت کو ایک’’قد آور‘‘جج نے بحال کر دیا۔ مرتضیٰ بھٹو پر بھی مقدمات تھے، وہ بھی مفرور تھا، وہ جب اپنے وطن واپس آیا تو اسے ائیر پورٹ ہی سے گرفتار کر کے سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا، اس کی والدہ بیگم نصرت بھٹو اس ’’حسن سلوک‘‘ کو دیکھتی رہ گئیں۔ مرتضیٰ بھٹو کیلئے ائیر پورٹ پر کوئی بائیو میٹرک کروانے پہنچا تھا نہ ہی سرکاری سیلوٹ آئے تھے نہ ہی حفاظتی ضمانت کیلئے کسی اور کا بائیو میٹرک کیا گیا تھا۔ سندھ اور پنجاب کے مفروروں میں یہی فرق ہے۔
اپنے کالم میں مظہر برلاس نے مزید لکھا کہ تاریخ میں یہ مثال بھی اپنی حیثیت کی آپ مالک ہے کہ ایک قیدی کی سزا معطل کر کے اسے علاج کیلئےبیرون ملک بھیج دیا گیا۔ ایک انوکھی مثال اور بھی ہے، ایک اور قیدی کی سزا معطل کر کے اسے جلسے جلوسوں کی اجازت دے دی جاتی ہے، نہلے پہ دہلا یہ کہ عدالتی حکم آتا ہے کہ اس شخصیت کی گرفتاری سے قبل ہمیں آگاہ کیا جائے۔ ایک اور عجیب و غریب مثال سامنے آتی ہے جس دن فرد جرم عائد ہونا ہو اس دن بندہ وزیر اعظم بن جاتا ہے جبکہ ایک سندھی قیدی کی زبان کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ولی خان اور غوث بخش بزنجو کی کہانیوں کو پرانا قرار دیتے ہوئے انصاف کی نئی اور تازہ مثالوں پر بات کرتے ہیں۔ تازہ ترین انصاف کی رو ح سے کوئی لوٹ مار تو ہوئی نہیں، منی لانڈرنگ نام کی کوئی چیز ہوئی نہیں، ملک ویسے ہی مقروض ہو گیا ہے۔ ملک کی معیشت پر سارا بوجھ اڈیالہ کے ایک’’قیدی‘‘ نے ڈالا ہے، اوپر سے سائفر بھی لے آیا، سنا ہے 9مئی کے ’’اندھا دھند‘‘ واقعات میں لوگوں کو اسی کا نام لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہاں کے اپنے دستور ہیں۔ اب ہمیں یہ روش چھوڑ دینی چاہیے۔
اپنے کالم کے آخر میں مظہر برلاس نے لکھا کہ میرے خیال میں بانی ایم کیو ایم کو بھی وطن آنے کی اجازت دی جانی چاہیے، ہو سکتا ہے ان کے جرائم ڈان لیکس، ممبئی حملوں، میمو گیٹ، طیارہ سازش کیس اور چالیس سالہ لوٹ مار سے کم ہوں۔ سائفر کا کھیل تماشا بھی ایسا ہی ہے۔ جب انصاف اتنا سستا ہو جائے کہ گلیوں اور بازاروں تک پہنچ جائے بلکہ ایک شمولیت یا پریس کانفرنس انصاف کی تمام منازل طے کرا دے تو ساری عمر عدالتوں میں دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم بڑے کب ہوں گے، ہمارے ہاں کب انصاف کی آنکھ سب کو ایک انداز سے دیکھے گی؟ ہمارے ہاں طاقتور اور مظلوم کیلئے مختلف انصاف کیوں ہے؟ ہم نے سب کچھ دولت ہی کو سمجھ لیا ہے، ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم دولت کی محبت میں کیا سے کیا کچھ کرتے جا رہے ہیں۔