چند روز ہر طرف دہشت پھیلی رہی،تبدیلیاں واضح نظر آرہی تھیں، سیاسی اتھل پتھل کا ہمیں اتنا ادراک نہیں تھا،بس بڑوں سے سنتے کہ اچھے کام ہو رہے تھے

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:78
اگلے چند روز ہر طرف بڑی دہشت پھیلی رہی اور فوجی جوان ٹرکوں میں بیٹھے ہر وقت سڑکو ں پر گشت کرتے رہتے تھے۔ دوکانیں اور بازار صاف ستھرے نظر آنے لگے تھے اور بھی تبدیلیاں واضح طور پر نظر آرہی تھیں۔ سیاسی اتھل پتھل کا ہمیں اس وقت اتنا ادراک نہیں تھا،بس بڑوں سے سنتے تھے کہ بڑے اچھے کام ہو رہے تھے۔
اسی سال ہمارے اسکول کے بہت ہی قریب واقع بوہری بازار میں شدید آگ لگ گئی۔ہم سب دیکھنے کے لیے کلاسیں چھوڑ کربھاگے، وہاں قیامت کاسماں تھا۔ عمارتیں دھڑا دھڑجل رہی تھیں اورلوگ جان بچانے کی خاطر کھڑکیوں ا ور چھتوں سے نیچے کود رہے تھے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے پھیل کر سارے بازار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تنگ گلیوں کی وجہ سے کوئی خوش قسمت ہی بچ کر نکل سکے ہونگے،تاریک عمارتوں میں رہنے والے عورتیں اور بچے اندر ہی جل کر بھسم ہوگئے تھے۔کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا، ہر کوئی پاگلوں کی طرح شور مچاتا ادھر ادھر بھاگتا پھر رہا تھا۔پھر فوج بھی پہنچ گئی اور ہم بچوں کو وہاں سے بھگا دیا گیا، اور آگ بجھانے کی بھرپور کاروائیاں شروع ہو گئیں۔
سارے شہر کے فائر بریگیڈ وہاں پہنچ گئے تھے لیکن آگ پر قابو نہ پایاجا سکا۔ پھر رات گئے سارے محلے کو خاکستر کرکے آخرکار وہ آگ بجھ ہی گئی۔ وہ سارا علاقہ بند کر دیا گیا اور پھر پورا مہینہ وہاں سے ملبہ اور لاشیں اُٹھائی جاتی رہیں۔ اس حادثے میں 100سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ تقریباً اتنے ہی دنوں تک سارے اخبارات سیاہ حاشیوں کے ساتھ چھپتے رہے، اور ہر روز کسی نہ کسی بدقسمت انسان کی درد ناک کہانی سنا کر ایک جہان کو رلاتے رہے۔ یہ اس وقت تک کراچی کی تاریخ میں آتشزدگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا، جس کے بعد ایسی آگ دیکھی نہ سنی۔
ان دنوں اگر کوئی کسی ناگہانی موت کا شکار ہو جاتا تو دو تین دن تک اسکا تذکرہ اخباروں میں ضرور رہتا،مرحوم کے گھر والوں کے انٹر ویو اور فوٹو چھپتے۔ اگر پورے اخبار پر نہیں تو کم از کم اس کی خبر کے ارد گرد سیاہ حاشیہ ضرور لگتاتھا، جس کو پڑھ کر ہر کوئی افسردہ ہو جاتا۔ آج کل کی طرح وہ محض اعدادو شمار کے گورکھ دھندے میں ہی کہیں گم نہ جاتاتھا۔ بہت قدروقیمت ہوتی تھی انسانی جان کی۔
جس طرف ہمارے کلاس روم کی کھڑکیاں کھلتی تھیں،ادھر ہی سڑک کے اس پار سامنے والی عمارت کی تیسری منزل میں ایک عیسائی خاندان رہائش پذیر تھا جس کی بالکنی میں اکثر ایک نو جوان خاتون ننھا سا گول مٹول بچہ لیے کھڑی رہتی تھی۔ایک دن جب وہ بچے سے لاڈیاں کر رہی تھی تو نجانے کیا ہوا کہ ایک دم بچہ اس کے ہاتھوں سے ہُمک کر اُچھلا اور چُھٹ کر نیچے فٹ پاتھ پر گرا۔اس عورت نے بہت شور مچایا، ہم سب بھی کلاسیں چھوڑ کر وہاں بھاگے۔ وہاں موجود لوگوں نے ایک سائیکل رکشے والے کو ہاتھ دیا اور ایک شخص ماں بیٹے کو لے کر ہسپتال بھاگا،وہاں سب کا خیال تھا کہ اتنی بلندی سے گر کر بچنا ناممکن ہے، مگر اللہ کی ذات بڑی عظیم ہے۔ تین چار دن بعد اچانک ادھر نظر پڑی تو دیکھا وہی خوبصورت سا بچہ ایک بار پھر ماں کی گود میں ہمک رہا تھا، اس کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور رب کی شکر گزار ماں اس بار ریلنگ سے قدرے پیچھے ہٹ کرکھڑی تھی اوربلا وجہ مسکرا ئے جا رہی تھی۔
کراچی جو ایک شہر تھا
ان دنوں کراچی بڑ اہی غریب پرور شہر ہوا کرتا تھا۔ لوگوں میں محبت اور خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، کبھی کسی کے ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ کون پنجابی، پٹھان یا مہاجر تھا۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ایسے ہی تھا جیسے اپنے ہی گھر کے ایک کمرے سے دوسرے میں چلے گئے ہوں۔ دوستوں کی مائیں سب کی سانجھی ہوتی تھیں اورسب ہی بچوں سے بہت پیار کیا کرتی تھیں، اور ہم سارا دن ایک دوسرے کے گھروں کے چکر لگاتے رہتے۔ غربت توبلا شبہ تھی لیکن قناعت پسندی بھی انتہا کی تھی، مہنگائی تو تھی لیکن اس کا رونا اس طرح نہیں رویا جاتا تھا جس طرح آج کل ہوتا ہے۔ لوگ مہنگائی کے مطابق خود ہی اپنی چادر کی کتر بیونت کرلیتے تھے۔ ویسے بھی زندگی بہت سادہ تھی۔ ایک عام سے گھر میں بلب اور پنکھے کے علاوہ بجلی کا کوئی سامان نہیں ہوتا تھا، ہاں پہلے کوئلے والی استری چلتی تھی پھر بجلی والی آگئی، اسی طرح کسی کسی گھر میں صحت مند اور لکڑی کی باڈی والا ریڈیو ہوتا تھا جس کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد بند کر کے ٹھنڈا کرنا پڑتا تھا۔ ڈرائنگ روم،جسے اس وقت بیٹھک کہا جاتا تھا، بہت ہی سادہ سا ایک کمرہ ہوتا تھا۔صوفے کا تصور اس وقت نہیں تھا، دو تین بڑی بڑی لکڑی کی آرام کرسیاں، ایک پلنگ اور ایک چائے پلانے کے لیے درمیانہ سا میز، بس یہی کل کائنات ہوتی تھی ڈرائنگ روم کی۔ ہاں جن لوگوں کو اللہ نے اضافی پیسہ دے دیا تھا وہ سو پچاس روپے والی د ر ی بھی خرید کر نیچے بچھا لیتے تھے۔ مہمان وہیں آکر بیٹھتے، کھانا کھاتے اور پھر وہیں پلنگ پر لیٹ بھی جاتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔