مہاجروں کو گالیاں دی جاتی ہیں، اسلام آباد میں پی ٹی وی پر حملہ ہوا مگر کچھ نہ ہوا: الطاف حسین
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ میں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو چودہ نکات پر مشتمل خط لکھا ہے، میں نے جو سوالات پوچھے ہیں کہ ان کے جوابات چاہے آرمی دے یا آئی ایس آئی دے، میں نے پہلا سوال ہی یہ پوچھا ہے کہ کیا وہ کلمہ پڑھنے والے کو مسلمان تسلیم کرتے ہیں؟ حالانکہ کوئی بھی انسان یہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو سکتا ہے اور کسی کو اختیار نہیں ہے کہ اس کو اسلام سے باہر نکال سکے۔کراچی میں جاری جنرل ورکرز اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں دوسیاسی جماعتوں کے دھرنے پچاس روز سے جاری ہیں اور ان کو کسی نے نہیں روکاحالانکہ ان کے کارکن پی ٹی پر حملہ آور ہوئے، وہ لوگ پارلیمنٹ کی عمارت میں خیمہ زن رہے مگر ان کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھائی گئی مگر ہم جب بھی ایم کیو ایم کی تنظیم نو کر کے ایجنسیوں کے لوگوں باہر نکالنے لگتے ہیں تو مائنس الطاف کی باتیں کی جانے لگتی ہیں اور مہاجروں کی لاشیں ملنے لگتی ہیں، ہم تو اسلام آباد میں دھرنا بھی نہیں دے سکتے اور اگر دیتے تو ہم پر ربڑ کی گولیاں نہیں اصلی گولیاں ماری جاتیں۔ قائد تحریک نے کہا کہ ملک کے لئے ہجرت کر کے آنے والوں کو عزت دی جاتی ہے لیکن ملک پاکستان ہے ،اس کی فوج پاکستانی ہے تو مہاجروں کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی تضحیک کیوں کی جاتی ہے؟جب مہاجروں کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں تو ہمیں بھارتی ایجنٹ ہونے ، گاندھی کی اولاد ہونے اور را کے سپورٹر ہونے کی گالی کیوں دی جاتی ہے۔ ہمیں کیوں کہا جاتا ہے کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ حالانکہ ہمارے آباءو اجداد نے ہی قائد اعظم کے ساتھ مل کر قربانیاں دے کر یہ ملک بنایا تھا مگر ان کی اولادوں کو آج غیر ملکی ایجنٹ کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ واپس بھارت چلے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سوال کرتا ہوں کہ 1992میں ہماری جماعت کے خلاف آپریشن کیوں کیا گیا؟ ہمارے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف مسلح جدو جہد کرتے ہیں، لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور کسی کو اپنے خلاف الیکشن تک نہیں لڑنے دیتے، لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم نے آج تک اپنی سب سے بڑی مخالف جماعت اسلامی کا کوئی کیمپ تک اٹھا کر نہیں پھینکا، جنرل نصیر نے کہا تھا کہ مہاجر الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہاجروں کو ابتداءہی سے تمام اہم عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا، ایوب خان کے دور میں بھی ظلم ہوتا تھا، یحییٰ خان اور بھٹو کے دور میں مہاجروں کو سرکاری دفاتر سے بے دخل کیا گیا اور آج بھی مہاجروں کے گھروں کو غنڈہ گردی کے اڈے کہہ کر چھاپے مارے جاتے ہیں، میں پورے ملک کے صحافیوں اور دانشوروں کو کہتا ہوں کہ آئیں اور کراچی میں تمام سرکاری دفاتر میں اردو بولنے والوں کی موجودگی کا جائزہ لیں، اپنی آنکھوں سے دوسرے ملازمین کے لہجوں کو پرکھ لیں۔