عظیم پاکستان اور ’’پراوہ‘‘ کا باسی

عظیم پاکستان اور ’’پراوہ‘‘ کا باسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عظیم پاکستان کے آثار نمودار ہو چکے ہیں۔ آنے والے ماہ و سال میں دنیا اپنا رویہ یکسر تبدیل کرے گی۔ ماضی کی غلطیوں کو مجبوریوں سے تشبیہ دے کر عالمی برادری نئے سرے سے پاکستان کو اپنی صفوں میں جگہ دے گی اور مالی مفادات میں حصہ داری کی خواہش پاکستان کو ایک نیا دوام بخشے گی۔بھارت ، امریکہ، اسرائیل اور چند عرب ممالک کی بھرپور کوششوں کے باوجود ’’سی پیک‘‘ کی صورت ممکن ہوگئی جسکے بارے چند سال قبل صرف سوچا ہی جا سکتا تھا۔اگرچہ موجودہ حکومت کے اکابرین اس اقتصادی راہداری کے مجموعی حجم، معاشی سرگرمیوں کے ٹوٹل والیوم، حاصل ہونے والے نیٹ منافعے بارے عام پاکستانیوں کو گائیڈ کرنے میں ناکام رہے،پھر بھی گاہے بگاہے منظر عام پر آنے والے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ عنقریب پاکستان میں ایسی فقید المثال معاشی سرگرمی برپا ہونے والی ہے جسے جدید تاریخ کا معجزہ قرار دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ قوم کو پاک ، چائنہ اقتصادی روٹ سے حاصل ہونے والی دولت کے بارے میں کھل کر کیوں نہیں بتایا جا رہا ؟۔ حکمران اپنے ہاتھوں میں آئے یکے کے تین پتوں سے فائدہ اٹھانے میں کیوں ناکام نظر آرہے ہیں؟۔ حکومت کو حالات کی کروٹ نے جس شاندار کامیابی سے نوازا اسے پوری طرح کیش کیوں نہیں کروایا جا سکا؟۔ شائد حکومتی ترجمانوں نے قائدین کو خوش کرنے کی خاطر عمران خان کی مخالفت پر اتنی توانائیاں صرف کر دیں کہ کسی کو ہوش ہی نہیں رہا لوگوں تک یقینی خوشحالی کی خوشخبری کس طرح پہنچائی جائے۔
سی پیک اور متعلقہ مالی فوائد سے متعلق قوم میں راتوں رات جنگی بنیادوں پر جوش بھرنے کی ضرورت تھی۔ شہروں، اہم سڑکوں اور چوراہوں پر خصوصی سٹال لگنے چاہئے تھے۔ بنیادی مقصد یہ کہ کئی دہائیوں سے مایوسیوں میں ڈوبی ہوئی قوم نئے سرے سے اٹھ کھڑی ہوتی۔ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ قصوروار کون ہے؟ وہ حکومتی احباب جو تحریر، تصویر اور تقریر کا شعبہ سنبھال کر چھوٹے چھوٹے ایشوز پرہی توجہ دے رہے ہیں۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مسلم لیگ (ن)کے پالیسی میکروں کو خود بھی ’’سی پیک‘‘ کی صورت طلوع ہوتے عظیم الشان مستقبل کے سورج کی خبر نہیں۔پاکستان کے گلی ، کوچوں تک کامیابی کی یہ نوید پہنچانے کی بنیادی ذمہ داری جناب احسن اقبال کی تھی، جسے پورا کرنے میں کوتاہی نظر آرہی ہے۔ چند سال قبل تک پاکستان کو دیوالیہ پن کی طرف بڑھتا قرار دینے والے واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، گارڈین اور خلیج ٹائمز اب تواتر سے ایک مالی طو پر خوشحال پاکستان کا نقشہ کھینچ رہے ہیں، جبکہ یہاں میڈیا اور وزراء نے کروڑوں پاکستانیوں کو مارچوں، ڈینگی، کانگو ایشوزمیں الجھا رکھا ہے۔ عوام کو کوئی بھی یہ بتانے والا نہیں کہ 47 ء سے لے کر اب تک جتنی غربت، دکھ اور پریشانیاں اس ملک پر نازل ہوئیں وہ جلد ہی ماضی کا قصہ بننے والی ہیں۔ پلک جھپکنے میں گذرنے والے محض چند سال بعد پاکستان پر دولت، عزت اور وقار کی ایسی برسات ہونے والی ہے جس میں بھیگنے والا بلاشبہ یہ پوچھ سکے گا ’’کیا پاکستان میں کبھی غربت بھی ہوتی تھی؟‘‘
حکمران طبقہ عمران فوبیا سے نکلے تو تبھی لوگوں کو بتا سکتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں کیا ہونے جا رہا ہے۔بظاہر محسوس نہیں ہوتا کہ اردگرد کس طرح کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کثیر تعداد میں پریشان حال لوگوں کو ادراک نہیں دنیا بھر کے اہم کاروباری اور تجارتی مراکز میں پاکستان بارے زبردست دلچسپی پیدا ہو چکی ہے۔ نجی سطح کے ٹاپ ہنڈرڈ سرمایہ داروں میں اقتصادی راہداری کے فوائد سمیٹنے کی خاطر رسہ کشی کو ایک طرف چھوڑیے، ماضی کے دشمنوں کی طرف سے بڑھتے دوستی کے ہاتھ کو بھی نظر انداز کر دیجئے ، فی الوقت ہمارے لئے یہ ہی نہایت خوشی کی بات ہے تنہا ہوتا پاکستان یکدم بین الاقوامی لائم لائٹ میں آگیا ہے۔ سعودی عرب، ایران قریب آتے ہوئے اپنی سرزمینوں سے نکلنے والے تیل کو بیجنگ تک پہنچانے کے لئے پاکستانی سفارش کے متمنی ہیں۔ یورپ ٹیکنالوجی اور سروسز کے ٹھیکوں میں حصہ دار بننے کے لئے پاکستانی زعماء کے اعزاز میں ظہرانے اور عشائیے دے رہا ہے۔ درحقیقت اس ’’گیم چیجنر‘‘ روٹ کا دوسرا مطلب پاکستانی شہریوں کی خوشحالی پر مبنی نئی تقدیر لکھنے کا عمل ہے۔ اگر آج یہ کہا جائے چند سال بعد پاکستان کے مجموعی بجٹ سے تین گنا زیادہ رقم ہاتھ پیر ہلائے بغیرہر سال مستقل بنیادوں پر قومی خزانے میں جمع ہوگی تو کیسا ہوگا؟۔

اگر موجودہ حالت میں یہ سوچا جائے کہ عام پاکستانیوں کا لائف سٹینڈرڈ یورپ کے مطابق ہو جائے گا تو کیسا محسوس ہوگا؟ ۔ اگر آج یہ تصور کیا جائے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی واپسی کی راہ پکڑیں گے، پاسپورٹ بتدریج توقیر حاصل کرے گا، غیر ملکی قرضہ اتر جائے گا، ہر سال اس قرضے پر ادا کئے جانے والے چودہ ارب ڈالر عام پاکستانیوں پر خرچ ہو ا کریں، تو کیسا ہوگا؟۔ یقیناًبہت اچھا اور یہ سب کچھ مستقبل میں ہونے جا رہا ہے۔لیکن بدقسمتی سے عام لوگوں تک یہ خوشخبری پہنچانے والا کوئی نہیں۔۔۔۔بھلا جس ملک کو دو ارب ڈالر سالانہ امداد کا لالچ دے کر ’’ڈو مور‘‘ جیسی بلیک میلنگ میں پھنسایا جاتا رہا ہو، وہاں اگر لگ بھگ پورے ایک سو ارب ڈالر سالانہ حاصل ہونا شروع ہو جائیں گے تو وہاں معاشی انقلاب رونما ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ آٹھ ارب ڈالر سالانہ صرف تیل سپلائی لائن کی مدمیں، خواہ ایران سے بیجنگ پہنچے یا سعودی عرب سے۔ اسی طرح گیس پائپ لائن، روڈ و ریلوے کیرج، گوادر پر قائم ہونے والی ایک سو بیس برتھوں کی کمائی سمیت درجنوں ایسی مالی مدات ہیں جو ملک میں چاروں طرف سے روپیہ لانے کا باعث بنیں گی۔
اس روٹ سے ہر کوئی منافع سمیٹے گا ۔ بدقسمتی صرف بھارت کے حصے میں آئے گی۔ اگر بھارت نہ سمجھا تو اس اقتصادی روٹ پر اکنامک ٹریفک کو عالمی سرمایہ دار لے اڑیں گے۔ وقت نکلا تو پاکستان کے چاہنے کے باوجود بھارت کو جگہ نہیں مل پائے گی۔ تاریخ میں پڑھا ہندو بنیا بڑا سیانا اور کاروباری ہے۔ شائد یہ حقیقت بھی غلط تھی۔ اگر سیانا ہوتا تو ایک وادی میں بستے چند لاکھ باسیوں کی خاطر کبھی اپنی سوا ارب آبادی کی معاشی تقدیر سے نہ کھیلتا۔ایک بھارت وہ ہے جو نامور دانشوروں نے اپنی تحریروں میں بیان کیا، اور ایک بھارت وہ ہے جسے مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے لکھاریوں نے بیان کیا۔ پچھلے دنوں ایسے ہی ایک نامور قانون دان اور کشمیر موومنٹ کی معروف شخضیت سردار محمد عارف خان(مرحوم)کی کتاب ’’پراوہ‘‘پڑھنے کا موقع ملا۔ ان صفحات میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پراوہ کی سحر انگیز صبحوں اور رومانوی شاموں میں اترنے والی خنکی بھی محسوس ہوئی اور بھارتی سماج کی وحشت کے ہزار پہلو دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اسی کتاب کے ذریعے ایک اور انکشاف بھی ہوا کہ لگ بھگ ستر سال گزرتے کے باجود ہندو کلچر، مسلم کشمیری کلچر کو اپنے اندر نہیں سمو پایا۔ ہندوستان نے اپنے اندر بسنے والی ہر قوم، مذہب کو بالآخر ہندتوا میں رنگا لیکن مقبوضہ کشمیر میں وہ ناکام ہوگیا۔ بھلا جس وادی کے باسی اپنے نوجوانوں کی لاشوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر قبروں میں اتارتے ہوں وہاں مزید کسی جذبے کی گنجائش نظر آتی ہے؟ سردار محمد عارف خان بھی ایسی ہی ایک پرجوش روح تھی جسے بالآخر پاکستان میں قبر نصیب ہوئی۔ زندگی مسلسل جدوجہد کی داستان، اپنی اَنا کی ایسی حفاظت کہ معمولی بات پر برسوں کی محنت سے منہ پھیر لیا۔ شائد تاریخ کا حسن بھی ایسے لوگوں سے ہی اپنی پیشانی کو سجاتا ہے۔

مزید :

کالم -