خالصتان، مودی اور مشترکہ جنگ!

خالصتان، مودی اور مشترکہ جنگ!
خالصتان، مودی اور مشترکہ جنگ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر پاکستان سکھوں کی سفارتی مدد کرے تو ہم خالصتان بنا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر امر جیت سنگھ کا یہ انٹرویو نیویارک میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر عثمان مجیب شامی نے کیا ہے جو وزیراعظم نوازشریف کی اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی سے خطاب کی سپیشل کوریج کے لئے امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ سکھ رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے اپنے خصوصی انٹرویو میں بڑی تفصیل کے ساتھ بھارتی فوج کے ان مظالم کو بیان کیا، جو سکھوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے مشرقی پنجاب میں کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جون 1984ء میں بھارتی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے سکھوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ آزادی کی جدوجہد میں شریک سکھوں ہی کا قتل عام نہیں کیا گیا، ان کے رشتہ داروں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ بھارتی حکمرانوں کو انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت سوز مظالم پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ جب اندراگاندھی کو قتل کیا گیا تو سات ہزار سکھوں کو دلی میں قتل کیا گیا۔ بیشتر سکھوں کو زندہ جلایا گیا۔
اپنے انٹرویو میں ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ آزادی کا نعرہ لگانے والے سکھوں کو جس طرح موت کے گھاٹ اتارا گیا، جانباز کشمیریوں کو بھی ان کے رشتہ داروں سمیت گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت نے اڑی حملے کی سازش تیار کی اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔ سکھ رہنما نے کہاکہ بھارت نے بلوچستان میں مداخلت شروع کر رکھی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کا کارڈ اٹھا کر منفی کردار ادا کرنے کی تیاری کررہا ہے تو پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی بھرپور جواب دینا چاہیے۔یہاں سکھ رہنما اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ پاکستان کو سکھوں کی سفارتی مدد کر کے خالصتان کے قیام کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ کے انٹرویو میں بھارتی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسی واضح ہوئی ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے مودی سرکار کا اصل چہرہ دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر اڑی حملے کے بارے میں سکھ رہنما نے صحیح تجزیہ پیش کیا ہے۔
مظلوم اورنہتے کشمیریوں کو اپنا آزادی کا حق مانگنے کے ’’جرم‘‘ پر بہیمانہ مظالم کا نشانہ بنانے والی مودی سرکار کو ہر طرف سے مُنہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان نوازشریف کے خطاب سے قبل اڑی حملے کا ڈرامہ کرکے سنسی پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اس سازش کا بنیادی مقصد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے مظالم سے دنیاکی توجہ ہٹانا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اڑی حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا اور دہشت گردی کو پاکستان سے جوڑ کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن بات نہ بن سکی۔ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کے ترجمان نے جلد ہی اعتراف کر لیا کہ اطلاع کے باوجود اڑی پر حملے کو روکا نہیں جا سکا۔ ہم سے غلطی ہوئی۔ وہ غلطی کیا تھی، اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائی جائیں گی۔ بس، اتنا ہی کافی ہے کہ ہم سے جو غلطی ہوئی، اس کی وجہ سے فوجیوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ غلطی کی تفصیلات بتانا قومی مفاد میں نہیں‘‘۔ بھارت کے اندر اور باہر، اڑی حملے کے بارے میں یہی تجزیہ سامنے آرہا ہے کہ اڑی حملہ بھارت نے خود کروایا، تاکہ بھارتی فوج کشمیریوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے، ان سے دنیا کی توجہ ہٹائی جائے۔ پاکستان کو اڑی حملہ کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا۔ دوسری صورت میں ’اڑی حملہ‘ مقبوضہ کشمیر میں موجود کسی عسکری گروپ کا بھارتی فوجیوں کے مظالم پر ردعمل ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی پالیسیوں اور حرکات سے اپنے لئے نفرت کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔ سیاسی اور عوامی حلقے انہیں مودی کی بجائے ’’موذی‘‘ کہنے لگے ہیں۔انہوں نے پاکستان کو تنہا کردینے کی دھمکی دی تو سب نے ان کا مذاق اڑایا کیونکہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم اور تحریک آزادی کا مقدمہ بڑے بھرپور انداز میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پیش کیا تو بھارت اس معاملے میں تنہا ہو کر رہ گیا۔ اسی بوکھلاہٹ میں مودی نے جنگ چھیٹرنے کی دھمکی بھی دے دی۔ ا س پر بھی انہیں منہ کی کھانا پڑی کہ خود ان کے سپہ سالار نے انہیں جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ عسکری ماہرین نے یہ بھی بتادیا کہ جنگ ہوئی تو بھارت کو بہت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ بھارتی فضائیہ کے چالیس فیصد طیارے اوور ہالنگ کے لئے گراؤنڈ ہو چکے ہیں۔ مودی کو بتایا گیا کہ بھارت صرف پندرہ دن تک جنگ لڑ سکتا ہے یعنی اس سے زیادہ جنگ کا ’’شوق‘‘ پورا نہیں ہوسکتا۔جبکہ پاکستان ایک ماہ سے زیادہ جنگ لڑنے کی پوزیشن میں ہے ۔جنگ سے اس قدر زیادہ تباہی اور بربادی ہوگی کہ اس کے تصور ہی سے جھرجھری آ جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مودی سرکار سے یہ بھی پوچھا گیا کہ بھارت میں پہلے ہی بہت غربت ہے۔ کیا غربت میں اضافہ کرنے کا ارادہ ہے؟
سول سوسائٹی نے تو مودی سرکار کو یہ کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کی کہ پہلے بھارت میں بیت الخلأ کی سہولت تو مہیا کرو، پھر جنگ کے بارے میں سوچنا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار کو ہر طرف سے تھپڑوں کی بارش کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید اسی وجہ سے ایک موقع پر مودی نے پاکستان کو غربت کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دے دی۔ بظاہر تو غربت کے خلاف مشترکہ جنگ کی دعوت ایک مثبت قدم قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی بات کرنے والوں پر مظالم کی انتہا کررہے ہوں اور کنٹرول لائن کے علاوہ سرحدوں پر جنگی سازوسامان لایا جارہا ہو تو غربت کے خلاف مشترکہ جنگ کیسے شروع ہوسکتی ہے؟بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پہلے دھمکیاں دینا بند کریں۔ کشیدگی اور تشدد ختم کریں اس کے بعد مودی کشمیر پر مذاکرات شروع کر کے پُر امن طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کریں، مودی سرکار اپنی الٹ بازیاں چھوڑ کر سنجیدگی سے کسی بات پر عمل کریں گے، تو بات بنے گی۔

مزید :

کالم -