نواز شریفکی پریس کانفرنس ، مزاحمتی ، محاذ آرائی پر مبنی سیاسی جدوجہد کا آغاز :
تجزیہ : سہیل چوہدری
اسلام آباد میں یک نہ شد دو شد وزیراعظم ! ایک آئینی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، اور دوسرے بقول پاکستان مسلم لیگ ن دلوں کے وزیراعظم میاں نوازشریف ، حد تو یہ ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی انہیں اپنے اور عوام کے دلوں کا وزیراعظم گردانتے ہیں ، وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں گزشتہ دو دن سے ’’دو وزرائے اعظموں‘‘کی مصروفیات کی وجہ سے خاصی ہل چل نظرآتی رہی ، سابق وزیر اعظم نوازشریف دو دن پنجاب ہاؤس میں اپنے مداحوں اور پارٹی رہنماؤں میں گھرے رہے ، ان کی دارالحکومت میں سب سے بڑی اور اہم ترین مصروفیت نیب عدالت میں حاضری تھی ، وہ جب دوروز قبل پی کے 786کے ذریعے لندن سے بے نظیر بھٹو ائیر پورٹ پر پہنچے تھے تو تب بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے انہیں وزیراعظم جیسا ہی پروٹوکول دیا تھا ، جبکہ گزشتہ روز انکی نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی وہی صورتحال دیکھنے کو ملی ،حکومتی اداروں کی جانب سے سابق وزیراعظم کو مکمل سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا گیا ، پاکستان مسلم لیگ ن کے حکومت میں ہونے کی بناء پر انہیں ملنے والا پروٹوکول توایک طرف ،لگتا تھا کہ ابھی سرکاری اداروں کے حکام اور اہلکاروں نے نوازشریف کی نااہلیت کو شائد مکمل طورپر تسلیم نہیں کیا ایک موقع پر جب نوازشریف کا قافلہ نیب عدالت میں پیشی سے واپس آرہا تھا راستے میں مامور پولیس اہلکار، اونچی اونچی آواز میں کہہ رہے تھے کہ ’’روڈ کلیئر کریں پی ایم کی موومنت ہونیوالی ہے ‘‘گزشہ دو دن ریڈ زون میں پنجاب ہاؤس جانیو الے راستوں پر وی وی آئی پی اور وی آئی پی موومنٹ کے ساتھ سیکورٹی پر مامور پولیس کی گاڑیوں کی گشت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ، ایک طرف تو سابق وزیراعظم کی آمد اور یہاں ا نکے دوروز قیام کے باعث حکومتی اور لیگی رہنماؤں اور کارکنوں میں خاصا جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا تو دوسری جانب انہیں پروٹوکول ملنے پر نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر سیکورٹی انتظامات کے باعث بعض علاقوں میں ٹریفک کے مسائل پید اہونے سے پاکستان تحریک انصاف کی تنقیدی آوازیں بھی سننے کو ملیں ، سابق وزیراعظم نوازشریف کے دارالحکومت میں قیام کے دوران ان کی نیب میں پیشی کے بعد سب سے ا ہم ترین مصروفیت ان کی پریس کانفرنس تھی اس پریس کانفرنس کا ایک روز قبل ہی اعلان ہو چکا تھا اس لئے ملک بھر کی عوام بھی متجسس تھی کہ سابق وزیراعظم اس میں کیا اعلان کریں گے ، اورکونسا انکشاف کریں گے ؟درحقیقت نواز شریف اپنی حکومت کے آخری سال میں نااہل تو ہوگئے ہیں لیکن ملک کے آئندہ سیاسی نقشہ کے حوالے سے’’پہل‘‘ان کے پاس ہی ہے ، اس لئے یہ پریس کانفرنس غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی ، اگرچہ نوازشریف نے پریس کانفرنس میں ایک تحریر شدہ بیان پڑھا اور صحافیوں کے سوالات لینے سے مکمل گریز کیا لیکن اس لکھے ہوئے بیان کے بارے میں موقع پر موجود کسی صحافی کا یہ تبصرہ دلچسپ تھا کہ یہ مزاحمت اور مفاہمت کا ایک امتزاج ہے، تاہم پریس کانفرنس میں بظاہر مفاہمت کا عنصر نظر نہیں آیا لیکن نوازشریف کے لب و لہجہ میں وہ غصہ اور کاٹ نہیں تھی جو لندن روانگی سے قبل نظر آتی تھی انہوں نے دھاڑنے کے بجائے ٹھہرے ہوئے مزاج کے ساتھ دھیمے اور سنجیدہ انداز میں اپنے خلاف ہونیو الے عدالتی عمل کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اسکی ساکھ پر سوالات اٹھا دیئے ، انہوں نے شریف خاندان کیخلاف جاری احتساب کے عمل کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس کا تقابل جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور آمریت سے کرتے ہوئے اسے اس سے بدتر قرار دیا ، انہوں نے کہا کہ عوام نے انکے خلاف عدالتی فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ 2018ء میں عوام کی بڑی عدالت یعنی عام انتخابات کا فیصلہ مولوی تمیز الدین سے لیکر نوازشریف تک تمام وزرائے اعظموں کے خلاف فیصلوں کو بہا کر لے جائیگا، انہوں نے اپیل کی کہ خدارا اس ملک کو آئین کے مطابق چلنے دو ، 70سال سے جاری اس کھیل پر تنقید کی اور کہا کہ اس 70سالہ پرانے کینسر کا علاج کیا جائے ، انہو ں نے تنبیہہ کی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک کسی سانحہ کا شکار ہوسکتاہے ، انہوں نے اس پریس کانفرنس میں جہاں اس مرض کی تشخیص کی وہیں اس کا علاج کرنے کی غرض سے آئین جمہوریت ، عوام کے حق حکمرانی او ر ووٹ کے تقدس کا مقدمہ لڑنیکی بات کرکے درحقیقت ایک جد جہد کے آغاز کے عزم کا اظہار کیا ، انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کس جرم کی سزاد ی جارہی ہے لیکن انہوں نے یقین دلایا کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے رہ کر یہ جنگ جیتیں گے ، انہو ں نے اپنی تقریر میں ایک طویل جدجہد کا عندیہ دیا ہے ، تاہم بعض لوگ سوال اٹھارہے تھے کہ اس بار ان کا ہدف صرف عدالتی فیصلے تھے یعنی ایک ادارہ ہی تنقید کا مرکز تھا جبکہ لندن جانے سے قبل وہ بین السطور دیگر اداروں کا بھی ذکر کرتے تھے کیا کہیں مقتدر حلقوں کو مفاہمت کا اشارہ تو نہیں دیا جارہا، بعض میڈیا پرسنز کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوازشریف اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے تو انہیں کھل کر بتانا چاہئے کہ ایسا کون کررہاہے ، لیکن نواز شریف کی پریس کانفرنس کو سن کر یہی تجزیہ قرین از قیاس ہے کہ کسی قسم کی مفاہمت یا ڈیل تاحال روبہ عمل نہیں ،دوران پریس کانفرنس سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کو نوازشریف کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر بعض لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاہد ن لیگ مفاہمت کی طرف بڑھے گی لیکن نوازشریف کے خطاب میں ایسا کوئی تاثر نہیں تھا، ان کی پریس کانفرنس کے مواد سے واضح ہے کہ آئندہ ایک مزاحمتی اور محاذآرائی پر مبنی سیاسی جد جہد کا آغاز ہوتانظر آرہاہے ،جو لوگ نوازشریف کی سیاست سے آوٹ ہونے کے اندازے کی بنیاد پر اپنی سیاست کا نقشہ کھینچ رہے تھے اب انہیں نوازشریف کی مزاحمتی سیاست کے ایک نئے اور غیر متوقع کھیل کے مقابلے میں ایک نئی بساط بچھا نا ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔