بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان(مرحوم)

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان(مرحوم)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی قد آور سیاسی شخصیت کل کی طرح آج بھی ملک کے سیاست دانوں خصوصاً حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے لئے روشنی کا مینارہ ہے، قائد محترم نے سیاسی زندگی کا آغاز اپنی خاندانی روایات سے ہٹ کر ہندوستان میں انگریز کے خلاف برسر پیکار جماعت آل انڈیا مجلس احرار سے کیا۔ وہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی صحبت، قربت اور تربیت کے باعث ان میں مذہبی شعور اور سوچ پیدا ہوئی،اس کے باوجود نوابزادہ نصراللہ خان قدامت پسند یا کٹر قسم کی مذہبی شخصیت نہ تھے اور نہ ہی روشن خیالی کے حامی تھے۔لاہور کے منٹو پارک میں 23مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ ئ عام میں ان کی شرکت اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ اختلاف رائے رکھنے کے باوجود نوابزادہ نصراللہ خان قیام پاکستان کے حامی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب مجلس احرار نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی تمام تر توانائیاں دفاعِ پاکستان اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے لئے وقف کر دیں تو نوابزادہ نصراللہ خان نے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے موقف کے ساتھ متفق رہتے ہوئے سیاسی میدان میں خدمات سرانجام دینے کے لئے پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پنجاب اسمبلی کا انتخاب دو حلقوں سے جیتا۔ان دنوں ارکانِ اسمبلی انار کلی بازار لاہور میں واقع دہلی مسلم ہوٹل میں ٹھہرا کرتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان زیادہ دیر پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ نہ چل سکے اور اصولی اختلافات کے بعد اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے کر مسلم لیگ کو چھوڑ دیا، مرحوم اپنی سیاسی زندگی میں سکندر مرزا سے ٹکرائے،صدر جنرل ایوب خان کے جبر کو برداشت کیا، قید و بند کی صعوبتیں اور ڈکٹیٹر کے کالے قانون ایبڈو سے نہیں گھبرائے اور بحالی جمہوریت کی جدوجہد جاری رکھی اور آخر کار جنرل ایوب خان کو اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کی میز کے گرد بیٹھنا اور آئندہ انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔ گرفتار سیاست دانوں کے خلاف درج مقدمات واپس لے کر انہیں جیلوں سے رہائی دینی پڑی،بند اخبارات کے ڈیکلریشن بحال کرنے اور گرفتار اخبار نویسوں کو باعزت چھوڑنا پڑا۔سیاست دان انتخابات کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ جنرل ایوب خان نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اقتدار آئین کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا، جو آئین ِ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا اور ملک کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بحالی جمہوریت کی جدوجہد مزید تیز کر دی، ملک دو لخت ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان، اقتدار پیپلزپارٹی کے چیئرمین مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر کے اپنے گھر چلے گئے اور بعدازاں ان کو جان کے خطرات کے پیش نظر ان کی رہائش گاہ میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔نوابزادہ نصر اللہ خان نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے حصول کے لئے سیاسی بولیاں بولتے اور طاقتوروں کی بولیاں سنتے دیکھا اور اس کو سمجھا، تو ملک میں سیاسی گاڑی کو پارلیمانی جمہوری نظام کے ٹریک سے نیچے اُترنے سے بچانے کے لئے سامنے آ گئے ان کا بطور اپوزیشن رہنما کردار فعال اور مثبت رہا،ان کے پیش نظر ہمیشہ جمہوریت کی بقا رہی، ساری عمر مارشل لاؤں اور سول آمروں سے تصادم رہا،انہوں نے اقتدار کی خواہش کے بغیر ملک و قوم کی خدمت کی اور زندگی کے آخری سانس تک اپوزیشن کی سیاست میں ایک باوقار سیاسی لیڈر اور قائد محترم کی حیثیت سے وقت گزارہ۔ نوابزادہ نصراللہ خان ایک پُرعزم سیاسی شخصیت تھے،نواب ابن ِ نواب ہونے کے باوجود ہمیشہ غریب اور غریب کے حقوق کی آواز بلند کی اور اس پر ڈٹ گئے ان کی جماعت پی ڈی پی کا مرکزی دفتر،سیاسی سیکرٹریٹ،سیاست دانوں کی تربیت گاہ اور ان کی رہائش گاہ32نکلسن روڈ لاہور پر واقع تھی،جس کے مین دروازے کارکن سے وزیراعظم تک ہر شخص کے لئے کھلے تھے۔ دروازے پر کوئی گن مین، چوکیدار پہرے دار نہ تھا جو بھی آیا،خواجہ اظہار امرتسری قائد محترم کو اطلاع دیتے اور فوراً ملاقات کرا دیتے۔قائد محترم کا روزانہ کا معمول تھا صبح نمازِ فجر کے بعد چائے کا ایک کپ پیتے اور پھر اخبارات کی فائل میز پر آ جاتی، پوری دلچسپی اور انہماک سے انڈر لائن کی ہوئی خبروں کا مطالعہ کرتے،رات بی بی سی کے علاوہ دُنیا کے دیگر نشریاتی اداروں کی جاری کردہ خبروں اور تبصروں کو بھی ضرور سنا کرتے تھے، اخبارات کی خبروں کے علاوہ کچھ منتخب کالم بھی باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے،ان کا مزاج شاعرانہ تھا،صاف ستھری لطیفہ گوئی بھی کر لیا کرتے تھے، وقت اور سیاست کی مناسبت سے شاعری بھی کرتے تھے ان کا تخلص ناصر تھا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒبھی اپنی تقاریر کو پُراثرار بنانے کے لئے اپنی تقاریر میں اشعار شامل کرنے کے لئے اپنے شعروں کی اصلاح نوابزادہ نصراللہ خان کی خاص پہچان تھی، ان کے بعد قرا قلی ٹوپی کسی سیاست دان نے نہیں پہنی۔ان کے صاحبزادہ نوابزادہ منصور علی خان آج کل پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں،اس سے قبل وہ وزیر مال پنجاب رہ چکے ہیں،بڑے سنجیدہ سیاست دان ہیں۔انہوں نے بھی اپنے والد ِ محترم کی روایت کو زندہ نہیں رکھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان سفید قمیض یا کُرتا اور اوپر شیروانی پہنتے تھے اور ہاتھ میں نفیس قسم کی خوبصورت چھڑی پکڑا کرتے تھے یہی لباس ان کی شناخت بن گیا تھا،سینکڑوں سیاست دانوں میں کھڑے اور سٹیج پر بیٹھے دور سے پہچان لئے جاتے تھے ان کے دور کی سیاست بڑی پُروقار تھی، سیاست دان سرکاری خرچ سے چائے کا ایک کپ بھی پینے کے روادار نہ تھے، میاں ممتاز دولتانہ کو ڈکٹیٹر ایوب خان نے اِس لئے ایبڈو، کالے قانون میں پھانس لیا تھا کہ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کے فنڈز میں سے اپنے دوستوں کو دو اڑھائی سو روپے کی چائے پلا دی تھی،اسی مہمان نوازی میں وہ ایبڈو، کالے قانون کا شکار ہو کر آئندہ الیکشن کے لئے نااہل ہو گئے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کا نام بعد میں ایبڈو کی فہرست سے خارج کرنا پڑا،کیونکہ ان پرالزام ثابت نہیں ہوا تھا۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کا نام ان نامور سیاست دانوں کی فہرست میں سب سے اوپر آتا ہے،جنہوں نے سیاست کو صاف، شفاف اور پُروقار مقام دینے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ انہوں نے ایوب خان کی آمریت سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے دور تک جمہوریت کی آبیاری کی اور جمہوریت کی بالادستی کے لئے سیاسی جماعتوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا،اپوزیشن کا کردار ادا کرنا، کسی سیاست دان کے لئے بھی آسان راستہ نہیں،یہ کانٹوں کی سیج ہے،اصولوں کی سیاست کرنے، اصولوں اور بات پر قائم رہنے کے لئے بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے،گھر آئی صدارت اور وزارت کی پیشکش پر لات مارنی پڑتی ہے، آج تو سیاست دان بے چارے، ایک وزارت سے نکالے جانے کے بعد دوسری وزارت کے لئے منت ترلے کرتے پھرتے ہیں۔یہی ایک بڑی کمزوری ہے کہ سیاست دانوں کی سیاسی تربیت مکمل ہی نہیں ہونے دی جاتی اور انہیں ایک سیاسی درخت سے اُڑا کر طاقتور اپنی نرسری کے گملوں کے کنارے بٹھا دیتے ہیں اور ان کو ان گملوں میں بھی جڑیں پکڑنے سے پہلے اکھاڑ کر دور پھینک دیتے ہیں۔سیاست دانوں کو کام کرنے کا وقت ہی نہیں دیا جاتا اور انہیں فارغ کر کے گھر یا جیل بھیج دیا جاتا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے بابائے جمہوریت کو قومی اسمبلی کے ایوان میں جانے سے روکنے کے لئے امیدوار قومی اسمبلی کے لئے بی اے پاس کی شرط عائد کر دی۔ بابائے جمہوریت نے کسی سے گلہ شکوہ نہیں کیا۔جنرل پرویز مشرف اور اس کی بنائی ہوئی حکومت کے خلاف ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سمیت دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کو اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے بٹھا دیا، حکومت حیران و پریشان ہو گئی، پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی چیئرمین محترمہ بے نظیر بھٹو، آگ اور پانی کا ملاپ تھا، جو ممکن نہ تھا،لیکن بابائے جمہوریت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران احمد خان نیازی بھی اس اتحاد میں شامل تھے،حالات کی ستم ظریفی، یہ وہی عمران خان ہیں جو پہلی بار الیکشن لڑے اور اپنی سیٹ بھی ہار گئے، مشرف دور میں الیکشن لڑا تو بمشکل اپنی نشست جیت سکے، آج ملک کے وزیراعظم ہیں۔بات کدھر سے کدھر نکل گئی بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے سعودی عرب، دبئی اور لندن کے بار بار دورے کر کے میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو متحد کر کے میثاق جمہوریت معاہدے پر دستخط کرنے پر متفق کر لیا، وطن واپس آ کر بابائے جمہوریت نے 25ستمبر 2003ء کو اسلام آباد میں اے آر ڈی کے قائدین کا اجلاس طلب کر رکھا تھا، قائد محترم اس اجلاس کی صدارت کرنے والے تھے کہ24ستمبر کو ان کو دِل کی تکلیف ہوئی ہسپتال داخل ہو گئے ایک بار طبیعت سنبھلی،مگر26 ستمبر کی رات12 بج کر 6منٹ پر دوبارہ دِل کا دورہ پڑا اور اللہ کو پیارے ہو گئے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

مزید :

رائے -کالم -