دھوپ چھاؤں کا تعزیت نامہ (1)
جب واہ میں اسلحہ ساز کارخانے کے توسیعی منصوبوں پہ عمل درآمد شروع ہوا تو میرے والد ایک طویل عرصے تک پی ا و ایف گدوال کے ایڈمن مینجر رہے۔ ایک شام دفتر سے گھر پہنچتے ہی کہنے لگے کہ آج موٹا اختر تمہارے ایک دوست کو ساتھ لے کر سفارش کرنے آیا تھا۔ موٹا اختر تو مَیں سمجھ گیا کہ اختر عادل ہے، ہمارا اسکول کا ساتھی اور شاعر جو آج دنیا میں نہیں۔ ”اور دوست کونسا؟“ ”یار، وہی یوسف عباس ترابی جو ہمارے سول انجنئیرنگ ڈپارٹمنٹ میں سینئر ڈرافٹس مَین ہیں“۔ یوسف عباس کا شعری حوالہ بھی مضبوط تھا۔ اِس لئے میری دلچسپی کے سبب ابا نے بتایا کہ یوسف کی طویل غیر حاضریوں کا مسئلہ بہت الجھا ہوا تھا کیونکہ سارا سال وقفے وقفے سے کبھی چھٹی منظور کروا کر اور کبھی اِس کے بغیر ہی ڈیوٹی سے غائب رہے ہیں، بہرحا ل آج دو گھنٹے لگا کر اُن کی رخصت کا دورانیہ ایڈجسٹ کر دیا ہے۔
سُن کر خوشی تو ہوئی لیکن حیرت یہ تھی کہ ایسے محکمے میں جہاں لازمی سروس کا قانون رائج ہے ایڈمن مینجر نے طویل غیر حاضری کا جواز کیسے ڈھونڈا۔ اِس پہ مجھے کئی ضوابط کے بارے میں کارآمد معلومات حاصل ہوئیں۔ جیسے یہ کہ سول سرشتہ میں اتفاقیہ چھٹی فنی طور پہ چھٹی نہیں ہوتی۔ اِس کے علاوہ پوری تنخواہ پہ آپ جتنی رخصت کے مستحق ہوں نصف تنخواہ لینے پر اُس کی طوالت دوگنی ہو جاتی ہے۔ پھر اگر ریٹائرمنٹ ابھی دُور ہے تو وہ چھٹیاں بھی مِل سکتی ہیں جن کے حقدار آپ آئندہ برسوں میں ہونے والے ہیں۔ پتا چلا کہ یوسف عباس کا پیچیدہ کیس سلجھانے کی خاطر اِن سب گنجائشوں سے کام لیا گیا ہے۔ اگلے ہی روز یوسف لنچ کے وقفے کے بعد کام پر نہ آئے تو ابا نے موقع ملتے ہی انہیں بُلا بھیجا اور کہا ”آپ نے پھر وہی حرکت کر دی۔ آخر اِس کی وجہ کیا ہے؟“ جواب ملا ”سر، دھوپ بہت تھی“۔
شاید آپ کو یہ بات عجیب سی لگے مگر مجھے یہ قصہ اپنے خاندان میں ایک رحلت کی خبر سُن کر یاد آیا۔ رحلت اور وہ بھی پھوپھو ممتاز کی۔ سینیارٹی کو دیکھیں تو عمر نوے سال سے اوپر، دیگر کوائف پہ جائیں تو ہمارے والد کے بعد اپنی تینوں بہنوں سے بڑی، اور شخصیت وہ کہ سر سے پاؤں تک مسکراہٹ۔ ہم میاں بیوی کورونا کی باقیات سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے واہ پہنچے تو یہی شور تھا کہ حکمِ ربی ہے۔ ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ یہیں ایک گستاخی ہوئی اور عشا کی نماز پڑھ کر مَیں نے اللہ میاں سے لاڈیاں کرنے والے ممتاز مفتی کی طرح یہ سوال آگے رکھ دیا کہ اگر آئینِ فطرت کو کچھ مزید وقت کے لئے معطل کر دیا جاتا تو ہم ایک گھنے سائے سے محروم تو نہ ہوتے۔ آواز آتی محسوس ہوئی ”گھنا سایہ۔۔۔ یہ کیوں درکار تھا؟“ منہ سے نکلا ”سر، دھوپ بہت تھی“۔
دراصل میری پیدائش سے ہوش سنبھالنے تک چار سیالکوٹی پھوپھیاں، اُن کی رشتے کی بہنیں، بھانجے اور بھانجیاں ہم پہ یوں سایہ فگن رہیں کہ آبائی گھر میں آج کے پاکستان کی طرح اصل فیصلہ ساز ادارے کا پتا نہیں چلتا تھا۔ یہ تعارف اِِس غلط فہمی کو جنم دے سکتا ہے کہ شاید میرے دادا نے بھی پنجاب کے روایتی مردوں کی طرح بیوی، بیٹیوں اور دیگر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا یا ہماری پھوپھیوں نے اکلوتے بڑے بھائی کے خوف سے سوچا کہ بھابھی کو ٹف ٹائم دیا جائے۔ نہیں، دادا نے تو ایسی رونقی طبیعت پائی تھی کہ کئی بار ہمارے ابا کو پیسے تھما کر کہا جاؤ، امینہ کے ساتھ سنیما دیکھ آؤ اور ماں کو بھی لیتے جانا۔ مسرت نذیر کی ’یکے والی‘ انہوں نے نوے دفعہ دیکھی۔ رہیں نندیں تو بھابھی سے اُن کا سلوک سگی بہنوں جیسا تھا مگر یہ اننگز اوپن کرنے کا اعزاز پھوپھو ممتاز کے سر ہے۔
کرکٹ کی زبان میں اننگز اوپن کرنے کی جگہ مجھے ’ون ڈاؤن‘ کی اصطلاح برتنی چاہیے تھی۔ یہ اِس لئے کہ آزادی کے وقت سے لے کر کوئی چھ سال کا عرصہ ریلوے اسٹیشن کے پاس چاچا میراں بخش کے مکان میں گزار کر جب ہمارا کنبہ ٹبہ کشمیریاں کے نواح میں واپس آیا تو تب تک پھوپھو ممتاز کی شادی ہو چکی تھی۔ پر یہ وہ زمانہ ہے جب قصباتی شہروں میں عزیز و اقارب کے گھر قریب قریب ہی ہوا کرتے۔ چنانچہ اپنے یہاں سے نکلے، ٹانچی والی گھاٹی پار کی، وہاں سے سیدھے ہاتھ زرگروں کا گھر، بائیں مُڑ کر سَندھی قصائی کا دروازہ، چند قدم آگے لیڈی ڈاکٹر سرفراز کا بورڈ، پھر اختر حسین بٹ عرف بھیا والی گلی کا سرا، اب ذرا سا خم کھا کر سیدھے ہوں تو سامنے پھوپھو کا گھر، جن کے شوہر کو پرانے خاندانی حوالے سے ہم نے ہمیشہ چاچا جی ہی کہا۔
اِس محلِ وقوع کا بڑا فائدہ تھا۔ بازار جانا ہو یا اسکول، یہ گھر راستے میں پڑتا۔ بس دروازہ پھاندا اور اندر۔ آپا مریم، چھوٹی بہن نور سکینہ، تایا جی اسحاق، چچا سردار ہمیں دیکھ کر یوں خوش ہوتے جیسے ہمارے انتظار میں تھے۔ ابا جمعہ کی نماز سنجیدہ عالمِ دین مولوی بشیر کے پچھے پڑھ کر کچی مسجد سے نکلتے تو اکثر کہتے کہ چلو یعقوب صاحب کی طرف چلیں۔ یہ مردانہ شاونزم تھا یا کوئی اَور کامپلیکس، لیکن اِس موقع پہ وہ بہن کی بجائے بہنوئی کا نام لیتے۔ یہ الگ بات ہے کہ پھوپھو ہمیں دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے خاطر مدارت میں لگ جاتیں۔ کبھی پھل، کبھی ریوڑیاں اور چلغوزے، منہ میٹھا کرنے کے لئے گجریلا، کھیر یا گڑ والے چاول۔ مگر مزا تو ابا کی غیر موجودگی میں آتا جب پھوپھو کے ساتھ گیند کھیلتے ہوئے ہم وہ روایتی گیت گانے لگتے جنہیں پنجابی میں ’تھال‘ کہتے ہیں۔ نمونہء کلام ملاحظہ ہو:
کوٹھے تے گنا، وِیر میرا لما
بھابھو میری پتلی، جہدے نک مچھلی
مچھلی تے مَیں نہاؤن گئی
لُنڈا پِپل ڈھے پیا
مچھلی آگئی ہیٹھ
مچھلی دے دو مامے آئے، میرا آیا جیٹھ
جیٹھ دی مَیں روٹی پکی، نال پکیاں توریاں
اللہ مَینوں بھاگ لائے، وِیراں دیاں جوڑیاں
کھٹ لے آؤن بوریاں
بوری بوری گھیو
جیوے راجا پیو
پیو پیری جُتی
جُتی دے کتورے، میرے سبھو تھال پورے (جاری ہے)