مہنگائی اور اس کے اثرات

مہنگائی اور اس کے اثرات
مہنگائی اور اس کے اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


موجودہ حکومت تین سال پہلے برسراقتدار آئی تو اسے خراب معاشی صورتحال کا چیلنج درپیش تھا  اور حکومت نے کچھ وقت سوچ بچار میں ضائع کرنے کے بعد آخرکار آئی ایم ایف سے مالی امداد لینے کا فیصلہ کر لیا۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ تقریباً ہر حکومت اِسی راستے پر چلتی رہی ہے اور پتہ نہیں آئندہ کب تک ہم آئی ایم ایف سے آزاد ہو سکیں گے۔ حکومت نے نہ صرف آئی ایم ایف سے مالی مدد حاصل کی بلکہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر جناب رضا باقر کی صورت میں افرادی اور فنی امداد بھی حاصل کی۔ اِس کے علاوہ بھی کچھ  ایسی شرطیں مان لیں جو شاید پہلی حکومتوں نے نہیں مانیں۔ اِن میں سب سے اہم فیصلہ کرنسی کی فری فلوٹنگ کا تھا۔ کہا گیا کہ یہ فیصلہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے مقصد معیشت کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا بتایا گیا۔ کہا گیا کہ ماضی میں حکومتیں مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر روپے کو مصنوعی طریقوں سے سہارا دیتی رہی ہیں جس سے معیشت کو لانگ ٹرم نقصان ہوا۔اِس دلیل میں کافی وزن تھا۔


قوم سے کہا گیا کہ اِس سے جو مہنگائی کچھ بڑھی ہے وہ ایک وقتی صورتحال ہے اور جوں ہی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو صورتحال مستقل طور پر سنبھل جائے گی۔ پھر اڑھائی تین سال گزرنے کے بعد یہ خوش کن اعلان بھی ہوا کہ اب معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہے۔ مشکل وقت گزر گیا ہے اور اب اچھے دن آنے والے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اچھے دن ابھی بہت دور ہیں معیشت کا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا بھی ایک دل خوش کن نعرہ تھا عملی صورتحال بہت افسوسناک ہے۔ مہنگائی پچھلے تین سال سے مسلسل بڑھ رہی ہے اس قدر مہنگائی ملک میں کبھی نہیں ہوئی۔ بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی کی مشکلات میں ہر لحاظ سے اضافہ ہوا ہے۔


پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے حکومت اِس معاملے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی لیکن میں سوچا کرتا تھا کہ آبادی زیادہ سہی اور تعلیم کے معاملے میں بھی ہم پچھلے رہ گئے ہیں۔ سیاسی نظام بھی ہمارا مضبوط نہیں ہو سکا تاہم پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی رحمت ہے کہ ہمارے پاس کھانے پینے کی چیزیں وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ گندم، چاول، سبزیاں اور فروٹ ہم وافر مقدار میں پیدا کرتے ہیں ہم کپاس بھی کافی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم صرف اپنا تن ڈھانپ سکتے ہیں بلکہ اِسے برآمد کرکے کچھ ڈالر بھی کما رہے ہیں لیکن افسوس کہ ہم اپنا یہ ایڈوانٹیج بھی کھو چکے ہیں اب ہم گندم  اور چینی کے علاوہ کپاس بھی درآمد کرتے ہیں ہم یہاں تک کیسے پہنچے اور کون اِس کا ذمہ دار ہے یہ معاملہ غور طلب ہے۔


پاکستان میں روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی جتنی اب ہے۔ اب ڈالر بہت اونچی اُڑان بھر رہا ہے۔ اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کے بقول معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی ڈالر پاکستان بھیج رہے ہیں لیکن پھر ڈالر کی قیمت کیوں چڑھتی جا رہی ہے۔ اب اگلے دن ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کی کمی دیکھنے میں آئی شاید حکومت نے صورتحال سے گھبرا کر روپے کو مصنوعی سہارا دینے کا وہی طریقہ اپنایا ہو یا اپنانا پڑے جو پچھلی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ اب آئی ایم ایف کے دباؤ میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔ پٹرول کی قیمت مسلسل اوپر جا رہی ہیں اور 123 روپے 30 پیسے تک پہنچ گئی ہے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے بعد مہنگائی مزید بڑھے گی۔ مہنگائی اب پاکستان کا مسئلہ نمبر 1 بن گئی ہے۔ غریب آدمی پہلے بھی پس رہا تھا اب بھی پس رہا ہے لیکن اب مڈل کلاس مشکل میں پڑ گئی ہے۔ اب اخبارات یا ٹیلی ویژن چینلز پر جب مہنگائی کی بات ہوتی ہے تو حکومت کے ترجمان آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں بعض کہتے ہیں ہاں مہنگائی ہوئی ہے لیکن بہت سے ملکوں سے کم ہے اس ملک کے باقی حالات سے اس کا مہنگائی کا مقابلہ کوئی نہیں کرتا کوئی کہہ دیتا ہے کہ یہ مڈل مین کا قصور ہے کوئی کہتا ہے اس میں مافیا کا ہاتھ ہے، یہ مافیا بڑا کارآمد لفظ ہے یہ کہہ کر کسی بھی مسئلے سے بآسانی جان چھڑائی جا سکتی ہے کہ اس کے پیچھے مافیا ہے۔ گویا خرابی میں حکومت کا کوئی کردار نہیں اور مافیا کے معاملے میں حکومت بے بس ہے لہٰذا مسئلہ ختم۔


مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے اس قدر کمی کی پہلے  کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسری بڑی وجہ چینی، گندم اور کپاس کی درآمد برآمد کی پالیسی ہے۔ پھر تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مستقبل میں مہنگائی میں کمی ایک سراب ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکہ مزید بڑھے گی سٹیٹ بینک کے تازہ اعدادوشمار بھی مہنگائی کی پیشگوئی کر رہے ہیں اس کے ہمارے معاشرے اور ہماری سیاست پر گہرے اثرات ظاہر ہوں گے۔

مزید :

رائے -کالم -