فیض قلندر اور ”قرب حق“ (حصہ دوئم)
سید بابا کے بقول سورہئ رحمن سے جسمانی بیماریاں ہی ختم نہیں ہوتیں بلکہ یہ کردار سازی بھی کرتی ہے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بیماری سے نجات پانے کے لیے سات دن سورہئ رحمن سنی اور وہ نہ صرف بیماری سے نجات پاگئے بلکہ صحت مند ہونے کے بعد راہِ سکوں کے مسافر بن کر اپنی زندگیوں میں روشنیاں بھرنے لگے۔
اپنے مرشد قلندر پاک کا ذکر کرتے ہوئے مصنف سید بابا کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ جلالی طبیعت کے مالک تھے لیکن اپنی آخری سانس تک خیر ہی خیر بانٹتے رہے محبتیں ہی تقسیم کرتے رہے طعنے اور ملامتیں سن کر بھی دعا ہی دیتے رہے کئی ہم عصر صوفیاء بھی قلندر پاک کو مارشل فقیر یعنی مارشل صوفی کہتے تھے ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ اولیاء دراصل اپنے وقت کے اسرافیل ہوتے ہیں جن کا کام غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنا ہے۔
جب قلندر پاک کو بعض نا سمجھوں نے کاکی تاڑ کا خطاب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا پتہ کاکی کون ہے کاکی نام ہے درد کا ممتا کا یہ نام ہے پاکیزگی کا اور دنیا داروں نے نا جانے اس نام کے ساتھ کیا کیا منسوب کر دیا یہاں وہ حدیث یاد آتی ہے کہ میرے اولیاء میری صدی کے نیچے ہیں اور ان کو میرے اور میرے دوستوں کے سوا کوئی دیکھ نہیں سکتا اور یہ اللہ پاک کے دوست ہی تو ہیں کہ جو عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر ایسی جگہ مقیم ہو گئے، جہاں انہیں ہر وقت طعن کا بھی نشانہ بنایا گیا لیکن قربان جائیے اللہ پاک کے دوستوں کے انہوں نے وہاں جا کر عارفانہ کلام سنا کر نشیؤں کو نشے کی لعنت سے نجات دلائی رقص کو دھمال میں بدل ڈالا۔ گناہوں کی دلدل میں دھنسے لوگوں کو سورہئ رحمن کے ذریعے قرآن کی ابدی روشنی سے آشنا کیا۔ قلندر پاک اکثر کہا کرتے کہ ہماری ڈیوٹی تو خیرو شر کا توازن رکھنا ہے مولوی کی طرح صوفی سب کو اپنے تئیں ہر وقت عبادات کی پابندی کرانے میں ہی مشغول نہیں رہتا بلکہ حواس خمسہ کے ساتھ ساتھ لطائف ستہ یعنی روح کے لطائف پر بھی دھیان دیتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی معرفت کے لیے پیدا کیا نہ کہ محض عبادت کے لیے جیسا کہ مولوی حضرات کہتے پھرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حقیقی ولیوں کی شان دیکھیں اور بظاہر گناہ گار نظر آنے والے لوگوں سے ان کی محبت کا عالم دیکھئے کہ اپنے ایک محبوب مرید کو کہا جاتا ہے کہ کلو کاکی کو فون کرکے دعا کروانے کا کہو۔ قارئین کرام ذرا غور کریں کہ سماج کی ایک بے مایہ خاتون سے کسی کے حق میں دعا کروائی جا رہی ہے کیا انسانیت کے احترام کی اس سے زیادہ روشن مثال کہیں مل سکتی ہے۔
دراصل یہ ہمارا نفس ہی تو ہے جو بظاہر کم حیثیت اور گناہ گار لوگوں سے دور رہنے پر ہمیں اکساتا ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ نفس بھونکنے والا کتا ہے لیکن ایک تربیت یافتہ کتا رکھنا جائز ہے کتاب میں اس بات کا بھی ذکر ملتا ہے کہ جب قلندر پاک نے بازارِ حسن کے قریب ہی آستانہ بنا لیا تو بہت سے لوگوں نے منہ بنا لیا لیکن وہ ظاہری آنکھوں سے معاملات کو دیکھ رہے تھے وہ لوگ دھمال اور میوزک وغیرہ میں ہی الجھ کر رہ گئے حقیقت ان کی نگاہوں سے اوجھل رہی جب لوگ قلندر پاک کو کہتے کہ آپ کنجریوں کے پیر ہیں تو ان کا جواب ہوتا کہ چلو میں کم از کم درد کی دولت سے آشنا تو ہوں قارئین کرام یہ مقام فکر ہے کہ جن جن عورتوں کو معاشرے میں نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ان کو اللہ پاک کے قلندر نے اپنی بیٹیاں بنا لیا سید بابا کی اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تصوف کی پہلی سیڑھی ادب ہے تصوف نام ہے خوش خلقی کا تصوف نام ہے محبت کا انسانیت کا تصوف نام ہے اپنے اللہ پاک پر کامل ایمان کا بغیر کسی شک و شبے کے کیوں کہ بابا کے بقول شک ایک گمراہی ہے ابلیسیت ہے۔
”قربِ حق“ کے مطالعہ سے ہمیں حقیقی معنوں میں حق کی قربت میسر آسکتی ہے۔
شرط صرف یہ ہے کہ اسے دل کی آنکھ سے پڑھا جائے راقم کی رائے میں اگر ہم مایوسی کے اندھیروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ”قرب حق“ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اگر ہم اپنے نفس کی گندگی اور سرکشی کو ختم کرنا چاہیے تو ہمیں اس قسم کی کتب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
مجھے یقین ہے کہ ”قربِ حق“ کے مطالعے سے ہم قرآن مجید میں موجود اس نور سے آگاہی حاصل کر سکیں گے جو ہماری زندگیوں کو ابدیت عطا کر سکتا ہے اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ کا حقیقی ولی اپنی ہر کرامت کو محض اللہ پاک کی رضا عطا خیال کرتاہے وہ ہمیشہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش کرتاہے وہ اپنی ذات کو ہمیشہ پیچھے اور اللہ پاک کو آگے رکھتاہے کتاب ”قرب ِحق“ دراصل اپنے وقت کے ایک قلندر کی سرگزشت ہے جو ان کے ایک نائب اور حقیقی وارث نے تحریر کی میں اس کتاب کے مطالعہ کے بعد بلا شبہ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ حضرت صفدر بخاری اور ان کے لاڈلے وارث سید شاکر عزیر المعروف سید بابا جیسے ولیوں کے بارے میں ہی وہ حدیث ہے کہ اگر تم لوگوں کو حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جاتی جیسا کہ معرفت کا حق ہے تو تم پانی پر چلتے اور تمہاری ہر دُعا سے پہاڑ لرز جاتے قارئین کرام یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ گزشتہ دنوں سید بابا نے اس ناچیز کے لیے جو دعا کی اور کرائی اس کی تاثیر فوراً محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ سید شاکر عزیر اپنی ہر عطا کو اپنے ہر مقام کو اپنے مرشد سے منسوب کرتے ہیں اور یہی عشق حقیقی کی نشانی ہے خدا کرے کہ سید بابا کے مرشد پاک نے سورہئ رحمن کا جو چراغ روشن کیا وہ اس چراغ کو روشن تر کرتے رہیں قرب حق میں قلندر پاک کا کہنا ہے کہ کوئی کتنا بھی سخت پتھر اور سنگ مرمر بھی ہو اگر کسی صاحب نگاہ قلب کے پاس پہنچ گیا تو وہ ہیرا بن جائے گا۔
اب دیکھئے کہ ہماری قسمت کب جاگتی ہے ہم کب معرفت کی روشنی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔