جعلی انجکشن سپلائرز کیخلاف شکنجہ تیار ، ایک ملزم عارف والا سے گرفتار
ملتان(وقائع نگار ) انجکشن ایوسٹین سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے کا معاملے پر محکمہ صحت ملتان کی جانب سے تھانہ کینٹ اور تھانہ چہلیک میں دو الگ الگ ایف آئی آر درج کروا دی گئیں جبکہ مقدمے میں انور مترو اور بلال نامی ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے دونوں ملزمان بغیر ڈرگ سیل لائسنس کے انجیکشن سپلائی کر رہے تھے جبکہ ملتان میں انجیکشن سے متاثرہ کوئی اور مریض سامنے نہیں آیا تھانہ چہلیک میں مقدمہ ڈرگ انسپکٹر بوسن ٹاون عثمان غنی کی درخواست پر جبکہ تھانہ کینٹ میں مقدمہ ڈرگ انسپکٹر شیر شاہ ٹاون نوید اسلم کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے دنوں تھانوں میں مقدمات ڈرگ ایکٹ 1976 کے تحت دفعات 27(1) اور دفعات 269, 335 اور 420 کے تحٹ درج کئے گئے ہیں تھانہ چہلیک میں درج مقدمہ کے ملزم بلال رشید کا تعلق لاہور سے ہے اور لاہور سے ہی انجیکشن ملتان میں آنکھوں کے ڈاکٹرز کو فروخت کرتا تھا جبکہ تھانہ کینٹ میں دی جانے والی درخواست کے مطابق ملزم انور مترو کا تعلق مترو اور حالیہ رہائش شاہ رکن عالم کالونی سے ہے ایف آئی آر کے مطابق ملزم بلال رشید نے جمعرات کے دن ڈاکٹر صفدر ہاشمی کے لیزر آئی کلینک زینب آرکیڈ میں دس انجیکشن ایویسٹن فراہم کئے جہاں آٹھ مریضوں کو اسی انجیکشن کے لگانے سے انفیکشن ہوا ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ملزم بلال رشید نے خود کو ڈاکٹر صفدر ہاشمی کے کلینک میں سائرہ میموریل کینسر ہسپتال لاہور کا نمائندہ ظاہر کیا ہوا تھا جبکہ تھانہ کینٹ میں دی جانے والی درخواست کے مطابق ملزم انور مترو نے بودلہ آئی کئیر میں کل آٹھ انجیکشن فراہم کئے جہاں تمام مریضوں کو اسی انجیکشن سے انفیکشن ہوا محکمہ صحت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش میں انور مترو نے خود کو شوکت خانم کا نمائندہ ظاہر کیا ہے جو کہ حقیقت میں ہے نہےں دونوں درخواستوں پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔ جبکہ انجکشن ایواسٹین سے متاثرہ 21 مریض اس وقت ملتان کے نشتر ہسپتال سمیت نجی کلینکس اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں سوموار کو نجی ہسپتال اور کلینک سے مزید 11 متاثرہ مریض رپورٹ ہوئے تھے جن مریضوں کو انفیکشن کے فوری بعد آنکھ کے پردے کا آپریشن بھی کر دیا گیا تھا ملتان کے نجی کلینک اور ہسپتال سے رپورٹ ہونے والے متاثرہ مریضوں کی تعداد 18 ہو گئی تھی جبکہ جھنگ کے تین مریض نشتر ہسپتال میں بدستور زیر علاج ہیں یوں ملتان میں رپورٹ ہونے والے مریضوں کی مجموعی تعداد 21 ہو گئی تھی ملتان سمیت صوبہ بھر کے مختلف اضلاع میں انجکشن لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہونے والے افراد کا معاملہ۔محکمہ صحت پنجاب نے ڈرگ انسپکٹروں۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے ذریعے آنکھوں کے ہسپتالوں کی سخت مانیٹرنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس حوالے سے محکمہ پنجاب نے سختی سے چیکنگ کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے ۔جس کے بعد ضلعی سطح پر ڈی ڈی ایچ اوز ۔ڈرگ انسپکٹروں اور ہیلتھ کیئر کمیشن کی ٹیمیوں نے صوبہ بھر کے اضلاع میں قائم آئی ہسپتالوں کی چیکنگ کیلئے شیڈول مرتب کرنا شروع کردیا یے ۔واضح رہے مذکورہ تمام افسران آنکھوں کے ہسپتالوں میں متعلقہ دستیاب طبی سہولیات ۔اپریشنز تھیٹرز میں موجود طبی آلات وغیرہ سمیت دیگر امور کا جائزہ لیں گے ۔جسکی رپورٹ گاہے بگاہے اعلی افسران کو ارسال کریں گے۔ دریں اثناٹیموں نے انجیکشن سے متعدد افراد کی بینائی جانے کے واقعات پولیس نے ملزم بلال رشید کو عارف والا سے گرفتار کرلیا ۔بتایا جارہا ہے کہ ملزم ماڈل ٹاون میں واقع نجی اسپتال میں ملزم اویسٹین کی وائل سے انجکشن تیار کرتا تھا۔اور جو غیر رجسٹرڈ، غیر لائسنس یافتہ انجکشن سپلائی کررہاتھاجبکہ لاہور پولیس نے عارف والا پولیس کی معاونت سے ملزم کی گرفتاری یقینی بنائی ۔واضح رہے پنجاب پولیس کے اسپیشل آپریشنز ونگ نے ملزم کی گرفتاری کے لیے کاروائیاں کیں ۔ انجکشن لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں سپلائی کیے جاتے تھے ۔
بہاولپور، بوریوالا(ڈسٹرکٹ بیورو، تحصیل رپورٹر)پنجاب بھر میں جعلی انجکشنز سے بینائی کھونے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔کیس میں ہونے والی تحقیقات نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔انجکشن تیار والی ملٹی نیشنل کمپنی نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے Reuters کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ان کا انجکشن امریکہ سمیت دنیا کے 130 ممالک میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔انجکشن بنیادی طور پر کینسر کے مریضوں کے لئیے بنایا گیا ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ Avastin انجکشن آ نکھوں کے استعمال کے لئیے نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے مختلف غریب ممالک میں کم لاگت کی وجہ سے اسے آ نکھوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ انجکشن جس کی قیمت 40 سے 50 ہزار روپے ہے مارکیٹ میں عام دستیاب نہیں ہے بلکہ ملٹی نیشنل کمپنی کی وائل خرید کر لاہور اور ملتان کے نجی ہسپتالوں میں پرائیویٹ لوگ اس وائل سے سب یونٹ ری پیک کرتے جس کی قیمت 12 سے 15 سو روپے فی یونٹ پڑتی لیکن اس یونٹ کو تیاری کے 12 سے 24 گھنٹوں کے اندر استعمال کیا جانا لازمی ہے۔ستم ظریفی دیکھیے ماہر امراض چشم یہ پرائیویٹ تیار کیے گئے انجکشن بغیر کسی لیبارٹری ٹیسٹ،بغیر بل وارنٹی ان پرائیویٹ اشخاص سے خرید کرتے جن کے پاس ڈرگ سیل لائسنس تک موجود نہیں تھا۔لاہور میں ری پیک انجکشن کے سپلائرز نوید عبداللہ اور بلال رشید کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ جنوبی پنجاب کے سپلائرز مقبول،میاں انور اور احمد کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں کیا گیا۔وزیر اعلی محسن نقوی کی ہدایات پر ہیلتھ کیئر کمیشن بھی خواب غفلت سے بیدار ہو چکا ہے اور واقعہ میں ملوث ڈاکٹرز کے خلاف انکوائریز کا آ غاز کیا جا چکا ہے۔حساس اداروں نے بھی معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جس میں ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب بھر کے ڈاکٹرز بڑے پیمانے پر ادویات کی فروخت کے دھندے میں ملوث ہیں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹرز اپنے نجی ہسپتالوں اور کلینکس پر غیر رجسٹرڈ اور اسمگل شدہ ادویات اپنے مریضوں کو فروخت کرتے ہیں جو کسی بڑے جانی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ڈرگ انسکٹرز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پنجاب بھر میں ڈاکٹرز نے اپنے نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں فارمیسیز بنا رکھی ہیں جہاں بغیر فارم 7 اور غیر منظور شدہ ادویات دھڑلے سے فروخت کی جا رہی ہیں۔جب کوئی ڈرگ انسپکٹر اس فارمیسی کی انسپکشن کرنا چاہے تو ڈاکٹرز ہڑتال کی دھمکی دے دیتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ڈاکٹرز کی نجی فارمیسیز کی انسپکشن ڈرگ کنٹرول برانچ کے سپرد
نہیں کی جاتی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔بورے والا کے ایک نجی ہسپتال میں بھی ایوستن انجکشن لگائے جانے سے 10 مریضوں کی بینائی متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے نجی ہسپتال کے آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر سجاد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایوسٹن انجکشن سے انکے کلینک پر جو انجکشن لگائے گئے تھے ان میں سے 10 مریضوں کی بینائی متاثر ہوئی ہے جن میں زیادہ تر مریضوں کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے اور دو تین مریضوں کی بینائی جزوی طور پر متاثر ہوئی ہے تاہم ان مریضوں کو لاہور،ملتان اور ساہیوال کے بڑے ہسپتالوں میں ریفر کردیا گیا ہے ہم یہ انجکشن اپنی ڈیمانڈ کے مطابق لاہور یا کراچی سے منگواتے تھے ہمارے سٹاک میں ایوسٹن کا کوئی انجکشن موجود نہیں یہ انجکشن زیادہ تر شوگر کے مریضوں کی آنکھ کی پتلی پچھلی جانب سے خراب ہونے پر لگائے جاتے ہیں اس سلسلہ میں جب دیگر ہسپتالوں سے بھی معلومات لینے کی کوشش کی تو وہاں سے ابھی تک کسی مریض کے متاثر ہونے کی اطلاع نہیں ملی نجی ہسپتال میں ابھی تک کوئی اور مریض سامنے نہیں آیا محکمہ صحت کی جانب سے تاحال اس بارے کسی قسم کی تحقیقات بھی سامنے نہیں آسکیں۔