چھوٹے ماموں کا پسندیدہ مشغلہ بچوں کے رشتے تلاش کرنا ہوتا تھا،وہ اس قدر رشتے کی تشہیر کرتے کہ بچہ منگیتر کا نام آتے ہی سرخ ہو جاتا اور منہ چھپائے پھرتا

چھوٹے ماموں کا پسندیدہ مشغلہ بچوں کے رشتے تلاش کرنا ہوتا تھا،وہ اس قدر رشتے ...
چھوٹے ماموں کا پسندیدہ مشغلہ بچوں کے رشتے تلاش کرنا ہوتا تھا،وہ اس قدر رشتے کی تشہیر کرتے کہ بچہ منگیتر کا نام آتے ہی سرخ ہو جاتا اور منہ چھپائے پھرتا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:48
ماموں کی فنکاریاں 
میرے چھوٹے ماموں غلام باری انتہائی زندہ دل اور رنگیلے انسان تھے۔ وہ جہاں بیٹھتے بس قہقہے ہی بکھیرتے رہتے تھے، ان کی اس چھیڑ چھاڑ سے کوئی بچ نہیں پایا، ہم بچے تو مسلسل ان کی شرارتوں اور چیرہ دستیوں کا شکار بنتے تھے۔ بچوں کے لیے ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ان کے لیے موزوں رشتے تلاش کرنا ہوتا تھا۔ وہ بڑے اہتمام سے ہم میں سے ہر ایک کو کسی کمّی کی کمسن بیٹی کے ساتھ منسوب کر دیا کرتے تھے اوراس بات کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیتے تھے کہ آج فلاں کی منگنی فلاں لڑکی سے کر دی گئی ہے۔ہم بچے تو تھے لیکن اب اتنے معصوم بھی نہیں تھے کہ ان کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکیں اس لیے منگنی کے نام سے شرماتے ضرور تھے۔ وہ اس قدر زور و شور سے اس نئے طے شدہ رشتے کی تشہیر کرتے تھے کہ مذکورہ بچہ اپنی منگیتر کا نام آتے ہی سرخ ہو جاتا اور منہ چھپائے پھرتا۔ جب سب بھائیوں کی منگنیوں سے فارغ ہو جاتے تو خود ہی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کسی ایک کی منگنی توڑ ڈالتے اور پھر دوسری جگہ رشتہ پکاکر دیتے۔ حسب روائت میری منگنی بھی دو دفعہ ٹوٹی اور آخر کار مجھے بتایا گیا کہ اب میں ایک جولاہے کی بیٹی سے منسوب کر دیا گیا ہوں، جس کی ایک آنکھ میں کچھ مسئلہ تھا اور وہ اکثربندہی رہتی تھی۔ نام تو اس کا حمیدہ تھا لیکن سب اسے مِدّو کہتے تھے۔چھوٹے بھائی شفیق کی نسبت جس بچی سے طے پائی وہ گاؤں کے موچی کی صاحبزادی تھی، جسے سب طوطی کہتے تھے۔اس کو ابھی تک اس نام سے اتنی نفرت ہے کہ بچوں کے بے حد اصرار کے باوجود وہ کوئی طوطا گھر میں نہیں لاتا،مبادا بعد میں کہیں وہ طوطی ہی نہ نکل آئے۔
تھوڑی بڑی عمرکے لڑکوں کو ماموں باری کسی اور ہی ڈھنگ سے تنگ کرتے تھے۔جس کو بیان کرنے کی تہذیب اجازت نہیں دیتی۔ تاہم جاتے ہوئے بچے کے پیچھے سے دھوتی اٹھا کر لوگوں کو نظارہ کروانا ان کا محبوب مشغلہ تھا، میں تو بچ نکلتا تھا لیکن شفیق اکثر ان کے ہتھے چڑھ کر عزت و آبرو سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔اس بیچارے کو تو ماموں اسی حالت میں اپنے پیروں پر بٹھا کر حوائج ضروریہ سے فارغ کروانے کا تصور دیتے تھے، اس دوران وہ اسی کام کے لیے تخلیق کی گئی مخصوص سیٹی ”سی وی۔۔سی وی“بھی بجاتے رہتے تھے۔شفیق تو اس وقت تک کچھ بڑا ہو گیا تھا اور اپنا برا بھلا سمجھتا تھا ورنہ زمین گیلی ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگتی۔پھر بھی شرمندگی کی انتہاپر ہوتا تھا وہ معصوم بچہ۔  
مزہ تب آتا تھا جب ماموں اپنے ہم عصروں میں بیٹھے اونچی اونچی چھوڑ رہے ہوتے تھے۔ چونکہ بہنوئی فوج میں تھا اس لیے وہ ہر طرح کا مذاق سرکاری کارندوں سے بھی کر لیتے تھے۔ اکثر ان کو للکارتے تھے اور کبھی کبھار ان سے مار بھی کھا لیتے، پھر وہی آزمودہ نسخہ تھا کہ ابا جان کو اس بندے کے خلاف ایک خط لکھواتے تھے۔وہاں سے ہفتے دس دن بعد فورٹ عباس پولیس سٹیشن کے وائرلیس سیٹ پر پیغام آتا اور متعلقہ محکمے کا آفیسر اگلے دن اس ملزم کو ساتھ لاتا اور ماموں سے معافی دلواکر اس کی جاں بخشی کروا دیتا۔
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب حکومت نے اس علاقے میں تیتر اور بٹیر کے شکار پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ماموں باری کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ کسی طرح 2زندہ بٹیر پکڑ کر دھوتی کے دونوں ڈبوں میں چھپائے اور گاؤں کے بڑے چوک میں آ کر وہاں بیٹھے ہوئے لوگو ں کے سامنے نہ صرف یہ کہ ان کی نمائش کی بلکہ سرکار کو چیلنج بھی کر دیا کہ دیکھتا ہوں کوئی میرا کیا بگاڑ لیتا ہے۔ ان کے بدخواہ بھلا یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتے، سرپٹ اونٹ دوڑاکر ایک بندہ فورٹ عباس تھانے گیا اور وقوعہ کی اطلاع کر دی ساتھ ہی بتایا کہ نہ صرف جرم سرزد ہوا ہے بلکہ سرکار کو بھی للکارا گیا ہے۔ اگلی صبح پولیس کے 2سپاہی نصف یونیفارم یعنی نیچے دھوتی اور اوپر خاکی قمیض اور ٹوپی پہنے آن دھمکے۔ ماموں کو بلوایا گیا، سپاہی ماموں کے خاندانی پس منظر سے واقف نہیں تھے، انھوں نے اپنے روایتی انداز میں ان کو سمجھا دیا کہ ایسا کرنا مناسب نہ ہے۔ حالانکہ ان دونوں کو وہاں کچھ معزز لوگوں نے کہا بھی تھا کہ یہ کام نہ کرو تمہارے لیے مسئلہ بن جائے گا،لیکن وہ نہیں مانے، تسلی سے اپنا کام کیا اور چلے گئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -