موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان

Sep 27, 2024 | 11:14 AM

تحریر: زینب وحید

ایک طرف سر تا پا پیوند لگی میلی کچیلی چادر میں لپٹی ماہ رخ اور  دوسری طرف ڈنمارک کے نیشنل چینل کا ہینڈ سم نوجوان کارل، دونوں دو الگ الگ دنیاؤں کے لوگ۔ 
کارل ڈنمارک کے نیشنل ٹی وی چینل میں کلائمیٹ جرنلسٹ ہے اور کئی دن سفر طے کر کے سیلاب کی کوریج کے لئے خیبر پختونخوا پہنچا تھا۔ لکڑی کی چھت والے کچے مکان کے صحن میں کوریج کے دوران اس نے پہلی بار ماہ رخ کو دیکھا اور دیکھتے ہی دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بے گھر اور بے ردا ہونے والی سینکڑوں ماہ رخوں کی تصویر اُس کی آنکھوں کے سامنے آگئی۔  
وہ سوچنے لگا کہ کیسے اس وقت براعظم ایشیاء میں پاکستان جیسے غریب ملک ہوں یا امیر مغرب،  سب ہی دنیا کو درپیش خطرے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹ رہے ہیں۔ 2023 کے بعد اب اس سال بھی اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا تیزی سے تباہ کن گرمی کے قریب بڑھ رہی ہے
بے موسمی اور بے رحم بارش نے ملاکنڈ میں ایسی تباہی پھیلا رکھی تھی کہ راستے بند ہونے سے کئی علاقوں کے لوگ کافی دنوں سے امداد کے منتظر تھے۔ کسی کو کچا گھر گرنے کی فکر تھی تو کسی سے کھانے پینے کی اشیاء نہ ہونے کی فکر نے نیند چھین لی تھی۔
کارل ڈنمارک سے روانہ ہونے کےبعد کئی دن کا سفر طے کر کے سیلاب کی کوریج کے لئے خیبر پختون خوا پہنچا تھا۔ لکڑی کی چھت والے کچے مکان کے صحن میں کوریج کے دوران اُس کی نظر ماہ رخ پر پڑی تھی تو اُسے اپنی چھوٹی بہن یاد آگئی، مگر فوراً ہی اُسے احساس ہو گیا کہ کھانا پینا نہ ملنے کے باعث اُس لڑکی کے چہرے کی سرخی ماند پڑ گئی تھی اور  وہ بھوک سے لاغر تھی۔ 
براعظم ایشیاء میں پاکستان جیسے غریب ملک ہوں یا امیر مغرب،  اس وقت سب ہی ملک دنیا کو درپیش خطرے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹ رہے ہیں۔ 2023 کے بعد اب اس سال بھی اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا تیزی سے تباہ کن گرمی کے قریب بڑھ رہی ہے، حالات گلوبل وارمنگ سے بڑھ کر گلوبل بوائلنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ اقوام عالم نے متحد ہو کر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کئے تو کلائمیٹ چینج کنٹرول کرنے کے طے شدہ اہداف کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ 
دنیا کے سینکڑوں سائنسدانوں نے 8 برس کی محنت سے تیار کر دہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کلائمیٹ چینج کے باعث فوسل فیول انڈسٹریز میں مرحلہ وار کمی نہ ہونے اور کاربن کا اخراج روکنے میں عزم کی کمی، قحط، خشک سالی، سیلاب، سطح سمندر میں اضافے، ماحولیاتی عدم مساوات، غذائی عدم تحفظ، ورلڈ فوڈ مارکیٹ کے  بحران، خوراک اور خصوصاً زرعی پیداوار میں کمی، آبادیوں کی نقل مکانی، پانی اور توانائی کی سپلائی چین متاثر ہونے اور  گلیشیئرز پگھلنے سے دنیا کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ متوقع اثرات پہلے سے زیادہ شدید ہیں اور دنیا تیزی سے خطرناک نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ غریب اور کمزور ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث عالمی امن اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ غریب یا کم آمدنی والے ممالک تو شاید اس حساسیت کو فی الحال نہ سمجھ سکیں لیکن اپنے عوام کی سکیورٹی، فلاح و بہبود اور وسائل کے درست استعمال کو ترجیح بنانے والے ممالک کیلئے یہ سب سے بڑا مسئلہ  بن کر سامنے آیا ہے۔ ان عوامل سے اقوام متحدہ خود بھی فکر مند ہے۔ اسی لئے ہر روز دنیا کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ تمام ممالک کوسوچ و بچار کر کے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ 
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس عالمی رہنماؤں کو وارننگ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں کے دوران ماحولیاتی مساوات نظرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ ماہرین نے بھی رائے دی ہے کہ  ماحولیاتی انصاف یا موافقت کا مسئلہ حل کئے بغیر ہماری معیشتیں، غذائی تحفظ اور عالمی استحکام خطرے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ  کلائمیٹ فنانس ناگزیر ہے۔ 
اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل نے کلائمیٹ چینج کو عالمی امن کے لئے نیا خطرہ قرار دیتے ہوئے فوری اقدام کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ امریکی شہر نیو یارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں ورلڈ پیس ڈے پر انتونیو گوتریس نے کہا ’’ماحولیاتی ایمرجنسی آج امن کیلئے نیا چیلنج ہے جو ہماری سلامتی، ذریعہ معاش اور زندگی کیلئے بڑا خطرہ ہے، امن کا مطلب صرف لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کرہ ارض کا مسئلہ ہے"۔
موسمی تبدیلیوں کے باعث یکے بعد دیگرے بحرانوں سے ورلڈ فوڈ مارکیٹ میں بحران، خطوں میں خوراک کی عدم دستیابی اور مقامی آبادیوں کی نقل مکانی جیسے مسائل پیدا ہوں گے جو مستقبل میں امن اور سلامتی کے لئے خطرات بن سکتے ہیں۔ انہی وجوہات کے سبب عالمی سطح پر سکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سادہ اور آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کلائمیٹ چینج کے نیتجےمیں خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی متاثر ہو گی، قدرتی وسائل کے حصول کے لئے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا، معیشتیں شدید خسارے میں چلی جائیں گی، قدرتی آفات کے تسلسل سے مختلف خطوں اورعلاقوں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔ یہ مہاجرین غریب ممالک سے ہجرت کرتے ہیں اور قریبی غریب ملکوں میں ہی جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے معاشروں میں وسائل کی کمی کے باعث مناسب ڈیٹا مرتب نہیں ہو پاتا، اسی وجہ سے مہاجرین کی آڑ میں ایسے عناصر بھی دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، جو بعد میں ان ممالک کی سکیورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے پانی سے متعلق معاملات کو دیکھنے والے مختلف اداروں کو "یو این واٹر" کا نام دیا گیا ہے۔ یو این واٹر کی ویب سائٹ پر موجود تجزیئے کے مطابق پانی اور ماحولیاتی تبدیلی لازم و ملزوم ہیں۔ کلائمیٹ چینج دنیا بھر میں دستیاب پانی کو مختلف اور پیچیدہ طریقے سے متاثر کر رہی ہے۔ 
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق کرہ ارض پر دستیاب 0.5 فیصد قابل استعمال پانی کےمعاملے پر بھی مختلف خطوں کا تناؤ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے عالمی سطح پراس کی فراہمی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، برف کی تہہ سکڑتی جا رہی ہے، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیلاب و  خشک سالی بڑھ رہی ہے۔ 
ماہرین وسائل کی تیزی سے کمی کے باعث سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی عوامل کے بگاڑ کے بارے میں فکر مند ہیں۔ گزشتہ بیس سال میں پانی کے ذخائر بشمول مٹی کی نمی، آسمان سے گرنے والی برف اور کرہ ارض پر جمی برف میں سالانہ ایک سینٹی میٹر کی شرح سے کمی آئی ہے، اسی طرح شدید موسمی اثرات خوراک کی پیداوارکے سلسلہ میں بھی ممالک کے درمیان تناو پیدا کر رہے ہیں۔ خشک سالی، سیلاب، طوفان اور سطح سمندر میں اضافے سے 20 ملین سے زائد لوگ پہلے ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔ کرہ ارض گرم ہونے سے طویل اور شدید خشک سالی، اراضی کے کٹاؤ، خشک چراہ گاہیں اور فصلوں کی پیداوارمیں بھی کمی ہو رہی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ سے زرعی اراضی اور انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔ کم ہوتی قابل کاشت زمین اور پانی کے ذرائع میں غیر متوقع کمی نے کئی ممالک میں کاشتکاری اور گلہ بانی کرنے والی برادریوں کے درمیان تناؤ بڑھا دیا ہے۔  بار بار خشک سالی، غیر متوقع بارشوں کے بڑھتے پیٹرنز  اور وسیع ہوتے ریگستانوں نے مختلف کمیونٹیز کے لئےزندگی گزارنا مشکل بنا دیا ہے۔ پانی کے محفوظ ذخائر کی طلب و رسد میں فرق سے معاشروں میں تناو بھی بڑھ رہا ہے جو کسی بھی وقت بدامنی کا سبب بن سکتا ہے۔ میٹھے پانی، آبپاشی کے پانی کی کمی اور پن بجلی کی ضروریات پر تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔  قدرتی آفات کے باعث کھیت کھلیان تباہ اور ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کو لاحق خطرات سے خوراک کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ یوں خوراک کی بلند قیمتیں اور  افلاس معاشرے میں عدم مساوات کو جنم دیتی ہے جس سےامن و امان کوخطرہ ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں اضافے سے دنیا بھر میں لوگوں کا بے گھر ہونے کا رجحان بھی زیادہ ہو گیا ہے۔  پاکستان اور جمہوریہ کانگو میں تباہ کن سیلاب سے لے کر افغانستان، مڈغاسکر اور افریقا میں مسلسل خشک سالی تک، لاکھوں افراد گھر چھوڑچکے ہیں۔ غیر معمولی بارشوں، طویل خشک سالی، ماحولیاتی انحطاط، سطح سمندر میں اضافہ کے نتیجے میں ہونے والے خطرات اور طوفانوں سے متاثر ہو کر سالانہ 20 ملین سے زیادہ لوگ اپنے ملک  چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانے پر مجبور ہیں۔
غریب ترین ممالک کی آبادی کا بڑا حصہ براہ راست کلائمیٹ چینج سے متاثر ہو رہا ہے۔ ان میں سے بھی زراعت، جنگلات اور ماہی گیری پر گزر بسر کرنے والے باسی زیادہ پریشان ہیں۔ پانی پر تناو براعظم ایشیاء کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ماضی میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع کو انتہائی تشویشناک قرار دے چکی ہے۔ 
ماہرین متفق ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً پونے 8 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ اگر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کنٹرول اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہ روکا گیا تو مزید تقریباً 2 کروڑ لوگ بھوک کی وادی میں چلے جائیں گے۔ 
اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اکیسویں صدی میں پائیدار ترقی کے اہداف میں رکاوٹ سوالات کے جوابات کی تلاش کے لئے سائنس اور ڈیٹا بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ خطرات سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ریئل ٹائم ڈیٹا ٹولز ڈویلپ کرنے (وقت کے ساتھ بدلتے حالات کے مطابق ڈیٹا کی ترتیب) کے لئے تمام ممالک متحد ہو کر کوشش کریں۔ 
جدید ٹیکنالوجی، قابل تجدید توانائی اور نئے طریقہ کار اپنا کر کاربن کا اخراج کم کرنے کی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے، اسی طرح Resilient future  یعنی مستقبل میں مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بڑھانا بھی اہم ہے۔ ایڈاپٹیشن کے تحت مختلف معاشروں میں اُن کے اپنے علاقوں میں حالات و واقعات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ 
ماہرین اور سائنسدان دنیا پر زور دے رہے ہیں کہ اب ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات روکنے کے لئے محض کاربن کا اخراج  کم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے لئے حقیقی عمل کا وقت آن  پہنچا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام مالی مدد کے ذریعے اس ضمن میں حکومتوں کی مدد بھی کر رہا ہے۔  

کارل جب ملاکنڈ آیا تو اس چھوٹے سے گاوں میں زندگی تھمی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ گرے ہوئے گھر دیکھ کر وہ سوچ رہا تھا کہ کلائمٹ چینج نے کئی معاشروں میں جنگ جیسی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔  اس عالمگیر مسئلے سے ہر خطے میں اُن لوگوں کے خواب بھی بکھر رہے ہیں جن کا کلائمیٹ چینج کو لانے میں کوئی کردار نہیں۔ اوریوں یہ ماحولیاتی تبدیلی ہر متاثرہ خطے کی سینکڑوں کم سن ماہ رخوں سے ان کا خوبصورت بچپن چھین  رہی ہے۔یہ حالات عالمی سطح پر امن و سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنتے جا رہے ہیں اور پوری دنیا صرف متحد ہو کر ہی مقابلہ کر سکتی ہے۔ کارل نے سر جھٹک کر ان خیالات کو الوداع کہا اور ماہ رخ کے چہرے کی اداسی کو اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ 

۔

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزیدخبریں