وقت نکلا جا رہا تھا، نیند کا کوسوں پتہ نہیں تھا، میں بستر پر سر پکڑے بیٹھا تھا، رات کے 12بج گئے اور قاہرہ میں کاروبار زندگی اسی رفتار سے چل رہا تھا

Sep 27, 2024 | 11:39 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:13
 بیسیوں ایسی چیخوں کے ساتھ ساتھ پوری قوت سے اتنی ہی تعداد میں ہارن بجاتی ہوئی گاڑیاں بھی سنگت دے رہی تھیں۔ کھڑکی کھول کے نیچے جھانکا تو دیکھا کہ بغیر چھت کی ایک گاڑی میں کھڑے سفید لباس میں ملبوس دولہا دلہن پھولوں کے گلدستے تھامے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ ان کے چہروں پر خوشیاں پھوٹی پڑ رہی تھیں اور وہ بلا تخصیص ہر ایک کی طرف ہوائی بوسے اچھال رہے تھے۔ میری طرف بھی ایک آیا، جو میں نے قبول نہیں کیا کیونکہ اس وقت میرا مزاج  قدرے برہم تھا۔ان کے پیچھے درجنوں گاڑیوں کا ہارن بجاتا ہوا ایک پورا دستہ چلا آرہا تھا۔
سوچا تھا اشارہ سبز ہوگا تو یہ لوگ یہاں سے کہیں نکل جائیں گے اور طوفان بد تمیزی ذرا تھم جائے گا،مگر افسوس، ایسا ہوا نہیں۔ اشارے کے سرخ اور زرد رنگ کئی بار سبز ہو تے رہے لیکن وہ وہاں سے ہلے تک نہیں اور وہیں سڑک کے ایک کنارے پر کھڑے پوری یکسوئی اور ایمانداری سے اپنی یہ نامعقول سرگرمیاں جاری رکھے رہے۔ ان کی دیکھا دیکھی آس پاس کی سڑکوں سے کچھ اور راہ گیر بھی وہاں جمع ہو گئے اور تالیاں بجابجا کر دولہا دلہن اور باراتیوں کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کر رہے تھے۔ ان تماشائیوں میں خواتین بھی تھیں جو ظاہر ہے ایسے موقع پر چیخیں مارے بغیر بھلاکیسے رہ سکتی تھیں۔
وقت تھا کہ نکلا جا رہا تھا، نیند کا کوسوں پتہ نہیں تھا، میں بستر پر سر پکڑے بیٹھا تھا۔ رات کے 12بج گئے تھے اور قاہرہ میں کاروبار زندگی اسی رفتار سے چل رہا تھا۔ جب مزید برداشت نہ ہوا تو کپڑے بدل کر نیچے گیا اور استقبالیہ کلرک کے سامنے پیش ہو کر فریاد اٹھائی اور اپنے لیے سڑک سے ہٹ کر کوئی دوسرا کمرہ مانگ لیا۔ اس نے بہت چھان بین کے بعد پچھلی گلی کی طرف ایک اندھیرا سا کمرہ دریافت کیا اور ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کرکے مجھے وہاں منتقل کروا دیا اور ہاں، اس بار میں نے ملازم کو بخشش نہیں دی تھی، وہ اس نے خود ہی بڑی بڑی آنکھیں دکھا کر وصول کر لی تھی۔ وہ چند پونڈ کی خاطر دروازے کے عین وسط میں کسی فرمانبردار جِن کی طرح ہاتھ باندھ کر اس وقت تک وہاں کھڑا رہا تھا، جب تک کہ اس کی بات بن نہیں گئی۔
ایک بار پھر اس بخشش کو کوسا جو میرے لئے ایک بہت ہی بڑا عذاب بنتی جا رہی تھی، اور اب بری طرح میرے اعصاب پر چھا گئی تھی۔ یہاں تو ہر بندہ اتنی آسانی سے بخشش مانگ لیتا تھا جیسے ہم کسی کو سلام کرکے جواب کی توقع رکھتے ہیں۔
قاہرہ کاعجائب گھر
صبح جب آنکھ کھلی تو دن کافی چڑھ آیا تھا۔ سوچا کہ قاہرہ میں اپنے پہلے مکمل دن کا باقاعدہ آغاز کیا جائے۔ ناشتہ کرکے میں نے باہر نکلنے کا ارادہ کیا۔ دوستوں کی ہدایت اور استقبالیہ سے حاصل کردہ سیاحتی نقشوں اور معلومات کی مدد سے میں کسی نہ کسی طرح قاہرہ کے عجائب گھر تک پہنچ ہی گیا۔ 
یہ ایک خوبصورت سی دو منزلہ پتھریلی عمارت پر مشتمل تھا جس کے سامنے اور گزر گاہوں پر فراعین مصر اور ابوالہول کے بڑے بڑے مجسمے نصب کیے گئے تھے۔ وہاں ا بھی دروازہ کھلنے میں کچھ وقت تھا۔ بہت سارے مقامی اور غیر ملکی سیاح باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ میں بھی تھوڑی دور کھڑا ہو کر ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں