زرعی سائنسدانوں کی تحقیق سے استفادہ کی ضرورت ہے،سکندر حیات بوسن

زرعی سائنسدانوں کی تحقیق سے استفادہ کی ضرورت ہے،سکندر حیات بوسن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (اے پی پی) وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی حاجی سکندر حیات خان بوسن نے کہا ہے کہ وہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں زرعی شعبہ کی ترقی اور کاشتکاروں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کریں گے ٗ گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصہ کے دوران ملک میں زراعت کے حالات موزوں نہیں رہے جبکہ میری ذاتی کوشش اور خواہش ہے کہ زراعت کو باقی شعبوں کی طرح منافع بخش بنایا جائے اور اس سلسلہ میں قومی اسمبلی ٗ کابینہ کے اجلاس سمیت دیگر فورمز پر بھی کاشتکاروں کے مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ وہ پیر کو یہاں مقامی ہوٹل میں زراعت کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ندیم طارق ٗ احمد سعد ٗ ڈاکٹر غلام احمد ٗ حماد اللہ ٗ کاشتکاروں ،زمینداروں ٗ زرعی ڈیلرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وفاقی وزیر زراعت سکندر حیات بوسن نے کہا کہ زراعت ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے جبکہ ملک کی کل آبادی کے65 فیصد افراد زراعت ٗ41 فیصد زرعی لیبر فورس سے منسلک ہیں جبکہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 22 فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے لہذا اس شعبہ کی اہمیت اور ملک و قوم کی بقاء کی خاطر اس شعبہ کی ترقی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ ٗ لاہور اور سیالکوٹ سمیت ملک کے چند علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہوئی ہے تاہم ملک میں گندم کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے چھوٹے و درمیانے درجے کے کاشتکاروں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار سستی کھاد کا بار بار استعمال کر کے زرعی اراضی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔   انہوں نے کہا کہ چاول ٗ کپاس سمیت باقی فصلات میں بھی ایسے حالات پیدا ہونے سے کسان پریشانی میں مبتلا ہیں۔ سکندر حیات بوسن نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم محمد نوازشریف اور وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف سے گزارش کی ہے کہ زرعی شعبہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے پیداواری لاگت کو کم کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ چھوٹے کاشتکار بھی اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور کاشتکاری کے پیشہ سے منسلک ہیں جس کی وجہ سے وہ کاشتکاروں کے دکھ اور مسائل کو بخوبی جانتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد زراعت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے سپرد کردیا گیا ہے لہذا زمیندار و کاشتکار نمائندوں کو چاہئے کہ وہ اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے آگے آواز اٹھائیں۔ انہوں نے پروگریسو فارمرز اور عام کاشتکاروں پر زور دیا کہ وہ پیداوار میں اضافہ کیلئے اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ کھاد ٗ پیسٹی سائیڈ سمیت دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں کمی میں ہی سب کا فائدہ ہے کیونکہ ہمیں اناج فراہم کرنے والے کاشتکاروں کو نقصان نہیں دینا چاہئے۔ اس کے برعکس وہ گزشتہ کئی سال سے کاروبار میں تاجر برادری بھرپور منافع کما رہی ہے جبکہ زراعت سے منسلک سٹیک ہولڈرز غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سستی کھاد خریدنا کاشتکاروں کی مجبوری ہے مگر بہتر کھاد سے ناصرف زرعی اراضی کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ اس کے غلط استعمال کی روک تھام کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار مختلف فصلات کے حوالے سے معلومات حاصل کر کے پانی کا استعمال کریں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ جب تک غریب کاشتکار تک اس کے ثمرات نہیں پہنچتے اس وقت تک سبسڈی کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے کاشتکاروں پر زور دیا کہ وہ معیاری کھاد کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور کھاد کے متوازن استعمال کو یقینی بنائیں۔ بھارت میں گندم کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ وہاں قانونی طور پر 20 نومبر کے بعد کاشت نہیں کی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکارکھاد کے متبادل ذرائع ٗ معیاری بیجوں ٗ پانی کے بروقت اور صحیح مقدار میں استعمال کر کے اپنی پیداوار میں ناقابل یقین حد تک اضافہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دنیا کے بہترین زرعی سائنسدان و محققین موجود ہیں جن کی ریسرچ سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید :

کامرس -