’’پانامہ‘‘والوں کی و ضاحت اور خان کی اخلاقیات؟
چلیں،اسے بھی دیر آید درست آید کہہ لیں، پانامہ پیپرز کی ’’مصنف‘‘ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس(آئی سی آئی جے) نے تین، ساڑے تین ہفتے بعد ہی سہی۔یہ اعتراف تو کر لیا کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کا نام غلطی سے دیا گیا۔ آف شور کمپنیاں، میاں صاحب نہیں، ان کے بچے چلاتے ہیں (یہ غیر قانونی نہیں، البتہ ان میں لگائے گئے سرمائے کے بارے میں پانامہ پیپرز خاموش ہیں کہ یہ سرمایہ غیر قانونی تھا، یا قانونی؟ اس کی تحقیقات مطلوب ہے)۔ آئی سی آئی جے کی وضاحت کے مطابق وزیراعظم پاکستان کا نام ایڈیٹنگ کی غلطی کے باعث، ایک جملے میں چلا گیا۔ خبر کے مطابق، دانیال عزیز کی شکایت پر آئی سی آئی جے نے ویب سائٹ پر موجود تمام غلطیوں کی اصلاح کر لی ہے۔
اِدھر پاکستانی میڈیا میں ’’پانامہ ہنگامہ‘‘ جاری ہے۔ عمران خان کے بقول، یہ قدرت کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے، جو ان کے ہاتھ لگ گیا ہے، پھر وہ اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں! ایسے میں پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی پیچھے کیوں رہتیں؟ پیپلزپارٹی میں سید خورشید شاہ کا موقف معقول اور متوازن ہے، لیکن اعتزاز احسن جیسوں کو ’’جنم جنم کے بدلے‘‘ چکانے کا موقع مل گیا۔ آخر لاہور کے ایک حلقے سے،11مئی2013ء کے عام انتخابات میں محترمہ بشریٰ اعتزاز کی ضمانت ضبط ہو جانے کا بدلہ، اب نہ لیا تو کب لیا جائے گا؟
یہ بات درست کہ جو جتنا بااختیار ہے،وہ اتنا ہی زیادہ جواب دہ بھی ہے۔ نواز شریف پاکستان کے (تیسری بار) وزیراعظم بنے ہیں، تو انہیں پاکستانی عوام کے سامنے جواب دہ بھی، دوسروں سے زیادہ ہونا ہے اور انہوں نے اس میں کسی کوتاہی، کسی گریز کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اپوزیشن کے مطالبے پر، وہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے تحقیقات کرانے کے اعلان سے دستبردار ہو چکے اور 22اپریل کی نشری تقریر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے انہوں نے، پانامہ لیکس کی تحقیقات کرانے کی درخواست کر دی، جس پر فیصلہ عالی جناب چیف جسٹس صاحب ترکی سے وطن واپسی (یکم مئی) کے بعد کریں گے۔ اگر انہوں نے یہ درخواست قبول کر لی، تو یہ ان کی صوابدید پر ہو گا کہ یہ تحقیقات ٹریبونل کتنے ججوں پر مشتمل ہو؟ وہ چاہیں تو سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل ٹریبونل بنا لیں، جس کی سربراہی خود کریں۔
جناب اسحاق ڈار کے مطابق ٹریبونل کے لئے ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آرز) بھی حکومت نے تیار کر لئے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کو پیشکش کی ہے، وہ ٹی او آرز کے لئے بہتر تجاویز بھی دے سکتی ہے۔
لیکن اب عام آدمی بھی یہ کھیل سمجھ رہا ہے کہ عمران خان اینڈ کمپنی کا مسئلہ پانامہ لیکس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور مُلک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں، بلکہ نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنا ہے، میاں صاحب کی اس بات میں وزن ہے کہ عمران خان وغیرہ کو دراصل یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ2018ء تک اگر موجودہ حکومت کو موقع مل گیا، تو وہ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر بہت حد تک قابو پا لے گی۔ اورنج لائن جیسے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہوں گے، سی پیک پر اتنی پیش رفت ہو چکی ہو گی کہ اندھوں کو بھی اس کے ثمرات نظر آنے لگیں گے۔ ایسے میں2018ء کے عام انتخابات میں بھی خان صاحب کے ہاتھ کیا آئے گا؟ بلکہ ان کے اپنے صوبے میں پرویز خٹک صاحب کی حکومت، جس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی بنا پر تو دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا بھی شائد اس کے ہاتھ سے نکل جائے، جہاں کے پٹھان حساب چکانے میں دیر نہیں کرتے۔
ادھر پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت اپنی کارکردگی کی بنا پر مسلم لیگ(ن) کو2013ء سے بھی زیادہ کامیابی دلا دے گی۔ بلوچستان میں2013ء میں خان صاحب کے لئے کچھ نہیں تھا سردار یار محمد رند یہاں پی ٹی آئی میں نیا اضافہ ہیں، لیکن وہ بھی کیا تیر چلا لیں گے۔ سندھ میں دیکھیں تو کراچی میں پی ٹی آئی کی کارکردگی اس لحاظ سے اطمینان بخش تھی کہ یہاں اس نے سات لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ قومی اسمبلی کی ایک نشست(ڈاکٹر عارف علوی) کے علاوہ اس نے صوبائی اسمبلی کی بھی دو نشستیں جیت لی تھیں، لیکن اس کے بعد کیا ہُوا؟ گزشتہ سال کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے باوجود، شرمناک شکست اس کا مقدر بنی۔ این اے246 کے ضمنی انتخاب میں وہ صرف14،15 ہزار ووٹ حاصل کر سکی۔ اب این اے245 کے ضمنی الیکشن میں اس کا امیدوار ہی بھاگ گیا اور کراچی میں خان اور اس کی پی ٹی آئی کے لئے تازہ صدمہ رکن سندھ اسمبلی حفیظ الدین قریشی کی، خان کو چھوڑ کر پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے داخلی معاملات کا یہ عالم ہے کہ ڈسپلن کے حوالے سے خان کی ایک نہیں چل رہی۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور چودھری محمد سرور کے مابین معاملہ گالی گلوچ تک پہنچ گیا، یہاں تک کہ خان صاحب اُٹھ کر چلے گئے۔ اس سے پہلے وہ پارٹی میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔
خان کے لئے ایک اور بڑا صدمہ جناب جہانگیر ترین (جنہیں خان کی اے ٹی ایم مشین بھی کہا جاتا ہے) کے کروڑوں روپے کے قرضوں کی معافی کا معاملہ ہے جو سامنے آ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی دیگ سے ایک چاول ہے، جو سامنے آ گیا ہے، ابھی اور کس کس کا نام آئے گا؟ دیکھئے اور انتظار کیجئے۔ تو کیا، خان صاحب اور ان کے رفقا اِسی لئے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے ٹرمز آف ریفرنس میں سے قرضوں کی معافی کا نکتہ نکلوانا چاہتے ہیں؟
خان صاحب اور ان کے ہم نوا سیاسی اخلاقیات کا بہت تقاضا کرتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف مہم کے لئے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کی قیادت کے ساتھ ان کے رابطے، سیاسی اخلاقیات کی کس شق پر پورا اترتے ہیں؟