جدید دور کے جدید تقاضے
آج انسانیت ترقی کے درجات برق رفتاری سے طے کرتے ہوئے ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے، جسے اگر انٹرنیٹ کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ سائنس کی اس ایجاد کے باعث جدید دور کا انسان بے شمار سہولتوں سے مستفید ہو رہا ہے۔ اس کے لئے تمام قسم کی معلومات صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر کسی بھی جگہ یا مظہر کی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ معلومات کے علاوہ سہل زرائع مواصلات نے زندگی کو مزید آسانیاں فراہم کی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر امر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔۔۔ مثبت اور منفی، یہی حال سائبر کی دنیاکا ہے، جہاں سائبر کی ترقی انسانی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں رونما کر رہی ہے ،وہاں اس کے منفی اور تخریبی استعمال نے بے شمار پریشانیوں اور تکالیف کو جنم دیا ہے۔ جس میں عریانی ، جھوٹا پروپیگنڈا، غلط معلومات کی فراہمی، معلومات کی چوری حتیٰ کہ دہشت گردی کے فروغ کے لئے بھی سائبر کی سہولت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک نے سائبر جرائم کی روک تھام کے لئے باقاعدہ طور پر قانون سازی کی ہے، جس کی بناء پر انٹرنیٹ کی دنیا کو محفوظ تر بنانے کی کاوشیں خاصی حد تک بار آور ثابت ہوئی ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم کی حوصلہ شکنی کے لئے 2007ء اور 2008ء میں اس سلسلے میں بل پیش کئے گئے تھے جو کہ منظور ہو کر پاکستان آئین کا حصہ بنے، لیکن 2007ء،2008ء کے بعد ایک لمبے عرصے تک جمود قائم رہا ،جبکہ دوسری جانب سائبر کی ترقی کے ساتھ ساتھ سائبر جرائم کی نوعیت میں جدت آ گئی اور ان کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مثالی صورت حال تو یہ ہے کہ قانون میں حالات کے مطابق پیشگی تبدیلیاں ہونی چاہئیں جو کہ دور اندیش قانون سازوں کا طرہ امتیاز ہے، لیکن پاکستان میں 2008ء کے بعد اب 2015ء میں خدا خدا کر کے ہمارے قانون سازوں کو اس پر توجہ دینے کی یاد آئی ہے اور "الیکٹرانک جرائم سے حفاظت2015ء"کا بل قومی اسمبلی میں منظور ہوا۔ یہ ایکٹ پورے ملک پر لاگو ہو گا، تاہم وہ تمام بیرون پاکستان عوامل بھی ،جو بلا واسطہ یا بالواسط پاکستان کی حدود میں کسی بھی شخص، معلومات ، واقعات یا نظاموں کو متاثر کریں، اس قانون کے تحت قابل مواخذہ ہوں گے ۔
یہ بل 5ابواب اور 51شقوں پر مشتمل اور 43صفحات پر محیط ہے۔ یہ پہلا قانون سازی کا عمل ہے جو سائبر جرائم ،مثلا الیکٹرانک دھوکہ دہی، فراڈ، مخصوص تحفظ خواتین جیسے عوامل کو قابل سزا قرار دیتے ہوئے قید اور بھاری جرمانے کی سزا مقرر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلی مرتبہ اس بل کے تحت تفتیشی پاور بہم تقویض کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کی تلاشی، ڈیجیٹل فرانزک ثبوت کو جمع کرنا اور ٹیکنالوجیکل ذرائع کا استعمال ایسے تحقیقاتی اختیارات ہیں جو کہ سائبر جرائم کی کھوج میں اشد ضروری تھے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان کی جانب سے پیش کردہ بل کے مطابق وفاقی حکومت کو اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں یا تو قانون نافذ کرنے کے لئے ایک ایجنسی کا قیام عمل میں لائے یا سائبر جرائم کی تحقیقات کے لئے کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ذمہ ان جرائم کی تفتیش کاطریقہ کار تفویض کرے۔
ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی شکل میں ڈیٹا کی چوری یا ہیکنگ کے جرم کا مرتکب ہو، بل کے مطابق جیل بھیجے جانے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ عوام الناس میں خوف و ہراس، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی ترویج کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ غیر تصدیق شدہ سم کارڈ کی ملکیت کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی شخص کے متعلق غلط معلومات کی تشہیر کے لئے تین سال کی قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا مختص کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ، ویب سائٹ، ای میل یا اس کے مترادف نظام کو کسی دوسرے کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کرے تو اس صورت میں بھی دس لاکھ جرمانہ اور ایک سال کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اگر اس جرم کا شکار نابالغ ہے تو دس سال قید اور 10ملین جرمانے کی سزا مختص کی گئی ہے۔ یہ بل وفاقی حکومت کو فرانزک لیبارٹری کے قیام کا پابند کرتا ہے۔ غرضیکہ یہ بل بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گا جو شرمناک واقعات ،جیسا کہ بچوں کی ویڈیوز کی تشہیر کا "قصور سکینڈل"کی حوصلہ شکنی کی جانب ایک موثر عمل ثابت ہو گا۔ اُ مید ہے کہ حکومت اس قانون کے نفاذ کے لئے بھی سرگرم رہے گی۔