سرکاری سکولوں کی عمارتیں طلبہ کیلئے خطرہ قرار، ذمہ داران سے فنڈز کی تفصیلات طلب
لاہور (لیاقت کھرل) صوبے بھر میں 13000 سے زائد سرکاری سکولوں کی عمارتیں انتہائی خطرناک۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے کروڑوں روپے سالانہ فنڈز، این ایس بی فنڈ اور ایف ٹی ایف فنڈز کے باوجود حالت نہ بدلنے پر سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز، ڈپٹی ڈی ای اوز، ڈی ای اوز اور ای ڈی اوز کے خلاف کارروائی کے لئے شکنجہ تیار کر لیا گیا۔ محکمہ سکولز ایجوکیشن کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ اور ممکنہ ایکشن کے حوالے سے ملنے والی معلومات کے مطابق لاہور میں 260سے زائد جن میں120 سے زائد سکولوں کی عمارتیں انتہائی خطرناک، جبکہ140 سے زائد سکولوں کی عمارتوں کے اکثریتی پورشن ناقابل استعمال ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر گوجرانوالہ ریجن اور تیسرے نمبر پر فیصل آباد ریجن کے اضلاع ہیں۔بہاولپور، رحیم یار خان، ملتان ریجن سمیت ساہیوال ریجن میں خطرناک عمارتوں والے سکولوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی گئی ہے اور سکولوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے مقامی حکومتی نمائندوں اور محکمہ تعلیم کی جانب سے سالانہ کروڑوں روپے کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود فنڈز کا درست استعمال نہیں کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فروغ تعلیم فنڈ اور نان سیلری بجٹ(این ایس پی) فنڈ کے باوجود ان سکولوں کی عمارتوں کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت نہیں کی گئی ہے اور فنڈز کے استعمال میں اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے۔ محکمہ سکولز ایجوکیشن کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق خطرناک عمارتوں میں واقع پرائمری سکولوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر مڈل سکولوں کی تعداد بتائی گئی ہے اس میں سب سے زیادہ سکولوں کی تعداد لاہور میں بتائی گئی ہے جس میں لاہور کے1261سکولوں میں سے260سے زائد سکولوں کی عمارتیں خطرناک ہیں جن سے120 سکولوں کی عمارتیں بھوت بنگلے کی شکل اختیارکئے ہوئے ہیں اس میں گورنمنٹ سینٹ فزانزنس ہائی سکول کی عمارت103سال پرانی اور اسی طرح گورنمنٹ پرائمری و ہائی سکول شاہدرہ کی عمارت خطرناک ہے جبکہ اسی طرح گورنمنٹ پرائمری سکول تقی پور کی عمارت جو کہ آبادی سے دو سے تین فٹ گہری ہے اسی طرح گورنمنٹ پرائمری سکول برکت پورہ کی عمارت بھی آبادی سے تین فٹ گہری ہے جبکہ گورنمنٹ پرائمری سکول جھگلیاں سندر کی عمارت بھی خطرناک قرار دی جا چکی ہے اس سکول کی عمارت تین کمروں پر مشتمل اور دو استاد تعینات جبکہ 44بچے زیر تعلیم ہیں۔ ہر سال اس سکول میں ڈراپ آؤٹ کی شرح10سے 15فیصد ہے اور انرولیمنٹ مہم ختم ہوتے ہی بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح گورنمنٹ پرائمری سکول ایجوگل، گورنمنٹ پرائمری سکول تلواڑا، گورنمنٹ پرائمری سکول یاہ شہیداں کی عمارتیں بھی انتہائی خطرناک قرار دی جا چکی ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ان سکولوں کی عمارتوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لئے محکمہ تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومتی نمائندوں نے بھی کروڑوں روپے فنڈز جاری کئے اور اس کے ساتھ ساتھ فروغ تعلیم فنڈ اور این ایس پی فنڈ سے بھی اِن سکولوں کی عمارتوں کی حالت نہیں بدلی جا سکی ہے اس طرح دوسرے نمبر پر گوجرانوالہ ریجن کے ضلع گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات میں170 ایسے سکول جن کی عمارتیں انتہائی خطرناک ہیں اور اس کے باوجود ان سکولوں میں بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ ملتان ریجن میں15فیصد سکولوں کی عمارتیں خطرناک قرار دی جا چکی ہیں جبکہ بہاولپور، رحیم یار خان، بھکر، لیہ اور اوکاڑہ سمیت ساہیوال ریجن کے اضلاع میں10سے12فیصد سکولوں کی عمارتیں انتہائی قرار دی جا چکی ہیں، محکمہ سکولز ایجوکیشن کے حکام کے مطابق خطرناک قرار دی جانے والی عمارتوں کی مرمت کے لئے کروڑوں کے فنڈز کے باوجود ان سکولوں کی عمارتوں کو مرمت نہیں کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ سکول ایجوکیشن نے ان سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں، ڈپٹی ڈی ای اوز اور ڈی ای اوز سمیت ای ڈی اوز کی جواب طلبی کر لی ہے اور ان سکولوں کے فنڈز کے استعمال میں ہونے والے گھپلے و خوردبرد کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ فنڈز کے استعمال میں اختیارات سے تجاوز اور خوردبرد میں ملوث ہیڈ ماسٹروں، ڈپٹی ڈی ای اوز، ڈی ای اوز اور ای ڈی اوز کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی جس میں نوکریوں سے معطلی، برخاستگی اور مقدمات بھی درج کئے جائیں گے۔