کیا پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے استعفے کے لئے کوئی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے ؟

کیا پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے استعفے کے لئے کوئی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
اگرچہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ ڈنکے کی چوٹ پر کردیا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اگر ان کے نالے کا جواب مثبت نہیں آتا تو پھر وہ کیا کریں گے؟ کیا انہوں نے اپنی پارٹی کے حقیقی سربراہ آصف علی زرداری سے ان کا آئندہ پروگرام معلوم کرلیا ہے یا پھر نوجوان چیئرمین سے پوچھ لیا ہے کہ اگر وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں آتا تو وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ ایسی صورت میں عام طور پر ہوتا تو یہ ہے کہ پھر تحریک چلانے کی دھمکی دی جاتی ہے اور اگر پارٹی میں یا پارٹیوں میں جان ہو تو تحریک عملاً چلا بھی دی جاتی ہے جیسا کہ 2014ء کے مشہور عالم دھرنوں میں ہوا تھا۔ یہ دو دھرنے تھے جو اپنے اپنے رہنماؤں کی رہنمائی میں لاہور سے الگ الگ چلے تھے مگر اسلام آباد میں چند روز ’’دور دور رہ کر‘‘ اچانک ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کی طرح شیر و شکر ہوگئے۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب دھرنے والوں کو یقین دلایا جا رہا تھا کہ اک ذرا صبر، استعفا پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنے والا ہے۔ اس ذوق یقین کے پیدا ہوتے ہی دونوں دھرنے یک جان ہوکر وزیراعظم ہاؤس کی طرف چل پڑے۔ ایک ٹولی شاہراہ دستور پر واقع پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں گھس گئی، پی ٹی وی کی نشریات آدھ پون گھنٹے کیلئے بند کرا دیں اور دھرنے میں اعلان ہوگیا، آدھی کامیابی مل گئی ہے باقی آدھی بھی چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہے، اس کے علاوہ بھی بڑے اعلانات ہوتے رہے، یہاں تک کہا گیا کہ ایک سال بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھا جائے گا، لیکن استعفا لئے بغیر واپس نہیں لوٹا جائے گا لیکن وہ جو حامد خان حامد نے کہا:
ہر بات کا اک وقت معین ہے ازل سے
چونکہ استعفے کا وقت معین ابھی نہیں آیا تھا اس لیے ڈاکٹر طاہر القادری 76 دن کے بعد اپنی دکان بڑھا گئے کہ ابھی اللہ تعالیٰ کو نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ منظور نہیں۔ دوسرا دھرنا اگرچہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں تو مقام بنا گیا، لیکن نتیجہ اس کا بھی کچھ نہ نکلا۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ایک جوڈیشل کمیشن بن گیا جس نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ 2013ء کے الیکشن میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی، لیکن یار لوگوں نے اب تک دھاندلی کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اب سوال یہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف یا ان کی جماعت وزیراعظم کا استعفا نہ ملنے کی صورت میں کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟ کیا وہ بھی دھرنوں کی سیاست کرے گی؟ پیپلز پارٹی کا ایک سینئر وفد راولپنڈی میں شیخ رشید کے ساتھ ملاقات کرچکا ہے جنہیں یقین ہے کہ یہ حکومت اب گئی کہ گئی، تو کیا پیپلز پارٹی اب شیخ رشید کے ساتھ مل کر کوئی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے، جو قابل احترام حضرات شیخ رشید کے پبلک سیکرٹریٹ میں گئے تھے انہیں وہ مناظر تو یاد ہوں گے جن کا اظہار شیخ صاحب اس وقت لہک لہک کر کیا کرتے تھے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور ایسی ہی ایک گستاخی کی وجہ سے شیخ صاحب کو پیپلز پارٹی کے عہد میں قید کی سزا ہوگئی تھی جو انہوں نے بہاولپور جیل میں کاٹی اور جس کی داستان انہوں نے ایک کتاب کی صورت میں بھی بیان کی، جس کسی نے بھی کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بہت ہی درست کہا تھا۔ پیپلز پارٹی جب شیخ رشید کے پیپلز سیکرٹریٹ میں حاضری دے رہی تھی تو شیخ صاحب کو نہ جانے بیتے دنوں کی یاد کس کس رنگ میں آئی ہوگی؟ تو خیر ہم بات کر رہے تھے کہ شیخ صاحب کو حکومت کی رخصتی کا حق الیقین ہے تو کیا پیپلز پارٹی بھی ان کے اس اعتماد میں حصہ دار بن گئی ہے؟ اور کیا وزیراعظم کے استعفا نہ دینے کی صورت میں پیپلز پارٹی کوئی تحریک چلائے گی یا کسی تحریک کا حصہ بنے گی؟ اس تجزیہ کار نے جب پارٹی کے چند سینئر رہنماؤں سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا تو ان کا کہنا تھا پیپلز پارٹی نہ تو کوئی تحریک چلائے گی اور نہ کسی ایسی تحریک کا حصہ بنے گی جو وزیراعظم کے استعفے کیلئے چلائی جائے گی۔
اس وقت تحریک انصاف نے سندھ سے کرپشن کے خلاف ایک مارچ شروع کیا ہے، جماعت اسلامی بھی کرپشن فری پاکستان کیلئے اپنی تحریک کا آغاز یکم مئی سے کرے گی لیکن کیا ان مارچوں اور تحریکوں کا کوئی اختتام بھی ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں، غالباً تحریک چلانے والوں کا پروگرام یہ ہے کہ وہ تحریک چلا کے نظم و نسق کو اپاہج کردیں، لیکن پھر کیا ہوگا؟ یہ شاید انہیں بھی معلوم نہیں۔ پاکستان کو اگر کرپشن فری بنانا ہے تو اس کیلئے مضبوط ادارے بنانا ہوں گے، جن کی چھلنی میں کرپشن کو چھان پھٹک کر اس طرح ختم کیا جائے جس طرح گندم سے جڑی بوٹیوں کے بیج ختم کئے جاتے ہیں۔ ادارے نہیں بنیں گے تو محض جلسوں جلوسوں سے یہ کام نہیں ہونے والا، نہ دل فریب نعروں سے کرپشن ختم ہوگی، اور اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھا ہے تو اسے معروضی حالات کا سرے سے کوئی ادراک ہی نہیں۔ جیسے آج ہی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے سونے کی اشرفیاں چلانے کی بات کردی ہے کوئی ان سے پوچھے وہ کس دور میں زندہ ہیں؟ ان حالات میں اگر پیپلز پارٹی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی جو حکومت کو ہٹانے کیلئے سڑکوں پر چلائی جائے گی تو یہ سیاسی طور پر ایک اچھی حکمت عملی ہے، کیونکہ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات تو اس دور پر لگ رہے ہیں جب وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، ڈاکٹر عاصم کس جماعت کے وفاقی وزیر تھے؟ سندھ کے جن افسروں پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں انہوں نے کس دور میں کرپشن کی؟ جو افسر یہ کہتے ہیں کہ وہ اوپر تک حصہ پہنچاتے رہے ان کا اشارہ کس جانب ہے؟ سندھ کے جو وزیر اس وقت ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں باہر بیٹھنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی تھی؟ شرجیل میمن کیوں چھپے بیٹھے ہیں وہ میدان میں آئیں، ان کے ہاتھ صاف ہیں تو وہ پاکستان آکر مقدمات کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟ غالباً ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے مقدمات ان کے سامنے ہیں جو انہیں واپس آنے کا حوصلہ نہیں دیتے ایسے میں شیخ رشید حکومت کے جانے کی جتنی بھی پیش گوئیاں کریں اور اپنے گھر آئی ہوئی پیپلز پارٹی کو جو بھی یقین دہانیاں کرا دیں وہ نہ تو کوئی تحریک چلائے گی نہ کسی تحریک کا حصہ بنے گی، بس اتنا ہے کہ وہ یہ تاثر ضرور دیتی رہے گی کہ وہ حزب اختلاف ہے اور قائد حزب اختلاف کا تعلق ان کی جماعت سے ہے، یہ آئینی عہدہ ہے جس کا بھرم تو رکھنا ہے، محض شیخ صاحب کو خوش رکھنے کیلئے گھاٹے کا سودا کرنا کوئی دانش مندی نہیں۔

مزید :

تجزیہ -