معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
چھتیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
میری حالت بہت بری ہو گئی تھی۔ میں سرتاپا پسینے میں بھیگ گیا۔ رعشہ سے پورا بدن کانپنے لگا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا فرش پھٹ جائے اور میں اس میں پورے کا پورا غرق ہو جاؤں۔ کوئی میرے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دے۔ نہ میں سن سکوں‘ نہ دیکھ سکوں نہ سوچ سکوں۔
’’کک کیا ۔۔۔ یہ سچ ہے شاہ صاحب‘‘ میرے گھٹنوں سے جان نکلنے لگی اور میں بید کی کرسی پر گر گیا۔
’’یہ سچ میرے بھائی ۔بابا جی ۔۔۔ جنہیں تم بہت بڑی ہستی سمجھ رہے تھے وہ شیطان تھا۔ ابلیس کی پرچھائیں تھا وہ‘‘ ان کے چہرے پر سختی آنکھوں میں الجھن اور لہجے میں ناراضگی صاف محسوس ہو رہی تھی۔
’’انہیں بھول جاؤ تم ۔۔۔ ان کا ذکر بھی مت کیا کرو ورنہ ایک روز پچھتاؤ گے‘‘
’’شاہ صاحب‘‘ میں نقاہت زدہ لہجے میں بولا ’’اب کس پچھتاوے کا غم کروں۔ پہلے میں اس بات کو تو برداشت کر لوں۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا‘‘ میرا کلیجہ پھٹنے کو تھا۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا سانسیں تیز ہو گئیں اور میں نے پوری قوت مجتمع کرکے شاہ صاحب کے ہاتھ پکڑ لئے ’’خدا کے لئے کہہ دیجئے یہ جھوٹ ہے‘‘
’’صبر میرے بھائی صبر۔ میں تم سے کیوں جھوٹ بولوں گا ۔۔۔ ریاض شاہ کے پاس جو بابا جی تھے وہ شیطان تھا اور یہی حقیقت ہے‘‘
اس بار میں نے ان کے چہرے پر عجیب سی چمک دیکھی تھی جو لمحہ بھر میں معدوم ہو گئی۔ میرے ذہن میں سوچ کی چنگاری بھڑکی۔
’’آپ نے فرمایا کہ ریاض شاہ کے پاس جو باباجی تھے وہ شیطان تھا‘ یہی فرمایا ہے ناں‘‘
’’ہاں ۔۔۔ میرا مطلب یہی ہے‘‘ وہ بولے ’’تمہارے لئے ٹھنڈا پانی منگواتا ہوں‘‘
’’جی شکریہ مجھے پیاس نہیں ہے۔ اگر آپ میری فکر ختم کر دیں تو میری برسوں کی پیاس بجھ جائے گی‘‘ میں نے کہا ’’آپ کی بات سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس جو بابا جی تھے یہ وہ نہیں تھے‘‘
’’ہاں میں یہی کہنا چاہتا تھا۔ تم ایک زیرک نوجوان ہو جلد سمجھ گئے‘‘ ان کے لبوں پر مسکان ابھری۔
’’تو پھر یہ سب کیا ہے‘‘ میں نے الجھے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
’’میں بتاتا ہوں۔ تم نے میری بہت خدمت کی ہے اور پھر ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا تم میرے پاس آ گئے اور میرے غموں میں شریک ہو گئے۔ اس لئے میرا فرض بنتا ہے کہ میں تمہاری جستجو اور منزل کا راستہ واضح کر دوں۔ تمہاری گتھی سلجھا دوں لیکن پہلے پانی پی لو‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے اور میں سامنے رکھے نگینوں سے بھرے صندوقچے کو دیکھنے لگا۔ مجھے غازی کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس نے کہا تھا کہ جنات نگینوں کے خزانے کے محافظ ہوتے ہیں تو کیا یہ سارے نگینے جنات نے انہیں دئیے ہیں۔ ایسے آبدار اور شفاف نگینے میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ شاہ صاحب شربت کے دو گلاس لے کر آ گئے۔ سامنے ترپائی پر رکھے اور ایک گلاس اٹھا کر کچھ پڑھنے لگے۔ پھر شربت پر پھونک مار کر مجھے پینے کے لئے دے دیا۔ میں نے لمحہ بھر کے لئے ہچکچاہٹ سے کام لیا تو وہ بولے ۔
’’میاں اس وقت تم جس جگہ بیٹھے ہوئے ہو یہ اس کا تقاضا ہے کہ تمہیں پانی دم کرکے دوں۔ ویسے بھی جب تم اس کمرے میں داخل ہوتے ہو اور جانے لگتے ہو تو میں تم پر دم کر دیتا ہوں تاکہ کسی جن کی شرانگیزی کا شکار نہ ہو جاؤ‘‘
شاہ صاحب کی بات سن کر میں غیر محسوس انداز میں پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا لیکن یہ کمرہ تو اجڑے دیار کی ترجمانی کر رہا تھا۔ صوفوں پر گرد جمی تھی۔ روشندان پر مکڑی کے جالے تنے تھے۔ لگتا تھا برسوں سے کسی نے صفائی نہیں کی حالانکہ یہ ان کی بیٹھک تھی۔
’’اصل قصہ یہ ہے میاں ۔میرا بھائی کالا علم کرنے والوں کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو آدھا تیتر اور آدھ بٹیر کہلاتے ہیں۔ اس نے نوری علم بھی سیکھا ہے اور کالا علم بھی۔ میاں سچ تو یہ ہے ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں لیکن نوری اور کالے علوم کے مابین کچھ ایسے علوم بھی ہیں جو دونوں کو آپس میں ملا کر بنائے جاتے ہیں۔ عالمین حضرات نعوذباللہ قرآن پاک کی مقدس آیات کے ساتھ ایسے ایسے عمل باندھ دینے میں شیطانی قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ اس پر جتنی بھی لعنت بھیجی جائے کم ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہمارے ہاں بہت سے مسلمان عاملوں نے ہندوؤں سے یہ عمل سیکھے اور تجربات کرکے دونوں علوم کو آپس میں مکس کر دیا۔ ان دونوں علوم کے درمیان لٹکے ہوئے یہ عامل ہوس کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ روپیہ‘ پیسہ‘ شہرت‘ قہر و غضب اور صنف مخالف کے ساتھ ان کی رغبت ایک مجبوری بن جاتی ہے۔ میرا بھائی بھی ان میں سے ایک ہے۔ اللہ معاف کرے۔ میں نے تو اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا اور نہ ہی میری والدہ محترمہ نے کبھی کسی سفلی علم کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ بابا جی سرکار میری عبادت گزار والدہ پر مہربان تھے اور ان کی وفات کے بعد باباجی سرکار میرے پاس آنے لگے۔ والدہ نے اور بابا جی نے مجھے روحانی علوم سکھائے تھے۔ میں چونکہ روپے پیسے کے لئے یہ کام نہیں کرتا تھا لیکن میرے بھائی سے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا وہ کہتا تھا کہ ہم جنات کی خدمت کرتے رہتے ہیں یا پھر دکھی انسانیت کے لئے اپنے آپ کو دکھوں میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ہم ان کے ذریعے پیسہ کیوں نہ کمائیں۔ سو وہ بھٹک گیا اور اس نے کالا جادو کرنے والے ہندو اور مسلمان عاملوں کے زیر سایہ چلے کاٹنے شروع کر دئیے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اسے اس گندی راہ سے بچا لوں لیکن وہ اتنا گھاگ اور شیطان ہو گیا تھا کہ اس نے مجھ پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ۔ مجھے جنات بزرگوں کی عزت کا خیال تھا لہٰذا میں نے بابا جی کو آزاد کر دیا۔ وہ میرے قیدی نہیں تھے بلکہ مہربان تھے۔ مجھے ان کی وجہ سے بے پناہ عزت اور شہرت ملی تھی۔ میں نے یہ بات ریاض شاہ کو نہیں بتائی تھی لیکن بدقسمتی سے میرے بیٹے کو یہ معلوم ہو گیا کہ میں نے بابا جی کو آزاد کر دیا ہے۔ اب وہ اپنی مرضی سے آتے یا پھر میں اگر کسی مجبوری کے عالم میں انہیں یاد کرتا تو وہ آ جاتے تھے۔ میرے بیٹے نے اپنے چچا یعنی ریاض شاہ کو یہ خبر دے دی تھی کہ بابا جی اب ہمارے پاس نہیں رہے۔ اسے اگر کسی کا خوف ہوتا تھا تو وہ بابا جی کا تھا۔ وہ نہ رہے تو وہ باغی اور مادرپدر آزاد ہو گیا۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے میرے گھر کے اندر بہت سی خندقیں کھود رکھی ہیں۔ یعنی اس نے میرے بچوں کو بھی گمراہ کر لیا ہے۔ خیر۔ جب مجھے معلوم ہوا تو اس وقت تک میرا بڑا بیٹا گمراہ ہو چکا تھا اور ریاض شاہ اسے اپنے ساتھ لے کر ان علاقوں میں چلا گیا جہاں میرے معتقد رہتے تھے۔ میں نے ان سے کبھی ایک پیسہ بھی نہیں لیا تھا لیکن ریاض شاہ نے بابا جی کے شعبدے دکھا کر لوگوں کا مال اور عزتیں لوٹنا شروع کر دیں‘‘
’’بابا جی کے شعبدے سے کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا
’’بتاتا ہوں میاں۔۔۔ ریاض شاہ نے عملیات کے زور پر جنات قابو کر لئے تھے اور پھر انہیں بابا جی کا سوانگ بھرنے کے لئے کہہ دیا تھا۔ ان میں سے کچھ جنات مسلمان تھے جس طرح مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مذہب سے دور ہوتے اور کافروں سے بدتر حرکتیں کرتے ہیں اسی طرح جنات میں بھی صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ ریاض شاہ نے خود کو روحانی بزرگ کے روپ میں ہر جگہ خود کو پیش کیا۔ وہ کسی مرید کے گھر بسیرا کر لیتا اور پھر وہاں گند پھیلانا شروع کر دیتا‘‘
’’لیکن شاہ صاحب پھر بابا جی شیطان تو نہ ہوئے‘‘
’’وہ اصل بابا جی نہیں تھے۔ میرے بابا جی تو نسلاً مسلمان ہیں اور ان کے بزرگ اور معلم صحابہ کرامؓ کی صحبت میں رہتے رہے ہیں اور۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ بابا جی کے بزرگوں سے بھی میں ملا ہوں۔ وہ بھی یہی کہتے تھے۔ میں نے اپنے ان ہاتھوں سے ان کی خدمت کی ہے۔ انہیں ہاتھوں سے محسوس کیا ہے اور ان نظروں سے دیکھا ہے۔ میں نے ریاض شاہ کے عملیات بھی دیکھے ہیں اور‘‘۔۔۔میں نے شاہ صاحب کی بات کاٹتے ہوئے بے صبری سے اپنی داستان سنا دی کہ کس طرح برسوں پہلے میں باباجی‘ ریاض شاہ اور ملنگوں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں سے ملتا رہا ہوں۔ ’’مگر شاہ صاحب میرا ذہن ابھی تک اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا کہ اگر وہ گندے جنات تھے تو ان پاکیزہ محفلوں کو کیا کہوں۔ درود و سلام کا ذکر‘ تلاوت قرآن پاک‘ نعتیہ محافل‘ بابا جی کا ریاض شاہ کی سفلی حرکات پر ناراض ہونا۔ یہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔ میں کیسے مان لوں اور کیا میں یہ مان لوں کہ نعوذ باللہ مقدس اور قرآنی اعمال کا شیطان پر اثر نہیں ہوتا۔ اگر وہ بابا جی شیطان کی پرچھائیں تھے تو پھر ان کی ایمانی صفات کے بارے میں کیا کہیں گے۔ استغفراللہ۔ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا شاہ صاحب اس بات کو واضح کر دیں اور پھر مجھے یہ بھی بتائیں کہ بقول آپ کے بابا جی اپنی مرضی سے آپ کے پاس آ سکتے ہیں اور مجبوری کے عالم میں آپ انہیں بلا بھی سکتے ہیں تو پھر ۔۔۔ جب آپ کا بھائی ہر طرف گند پھیلا رہا تھا‘ اس نے قیامت برپا کی ہوئی تھی آپ نے اصلی بابا جی سے مدد کیوں نہ مانگی۔ کیا یہ مجبوری نہیں بن سکتی۔ انصاف اور ظلم کا جواب دینا چاہئے تھا آپ کو۔ معاف کیجئے شاہ صاحب آپ کی باتیں میرا ایمان خراب کر دیں گی۔ میں اصل راستے سے بھٹک جاؤں گا۔ للہ کچھ واضح کریں‘‘
’’میاں‘‘ وہ میری بات سن کر گہری اداسیوں کی چادر میں سو گئے۔
’’تم سچ کہتے ہو۔ تمہارے سوالوں کے جواب دینے لگا تو کتابیں بھر جائیں گی لیکن شاید میری وضاحت مکمل نہ ہو سکے۔ یہ بات ذہن میں رکھ لو کہ جب کوئی مسلمان بھٹک سکتا ہے تو وہ شرک کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔وہ صرف شیطان کا غلام ہوتا ہے۔ میں صرف تمہیں ایک بات بتا سکتا ہوں اگر تم اسے سمجھ گئے تو جان لو گے کہ یہ اشرف المخلوقات حضرت انسان کیا کچھ کر سکتا ہے۔ اللہ کے بندے۔ اگر یہ انسان علم کی معراج کو چھو لے تو زمین کا سینہ اس کی انگلی کے اشارے سے چاک ہو جاتا ہے۔ یہ دنیا اندھیروں میں ڈوب سکتی ہے۔ آسماں تھرا اٹھتا ہے لیکن اللہ کا وہ کابل بندہ کبھی ایسا فعل نہیں کرتا۔ اللہ اپنے بندے کی کوئی بات رد نہیں کرتا۔ اب اس کامل بندے سے کم تر بندوں کے علم کی انتہا یہ ہے کہ وہ جنات کی بستیاں اور شہر اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اگر وہ کم تر بندہ یہاں سے دل میں پکارے تو لاکھوں میل دور بیٹھا اس کا غلام یا دوست جن پلک جھپکنے میں اس کے پاس آ جاتا ہے۔ یہ ہے علم کی صداقت اور اس کی معراج ہے۔
اب سنو۔ شیطان یعنی ابلیس کوئی عام شے نہیں۔ اس نے سارے علوم سیکھے ہیں اور ان کے زعم میں مبتلا ہو کر متکبر ہو گیا۔ ابلیس بھی جنات میں سے تھا۔ شیطان الگ سے مخلوق نہیں تھی بلکہ ابلیس سے جنم لینے والی اور اس کے نقش قدم پر چلنے والی جناتی مخلوق شیطان بن گئی۔ یعنی شرپسند‘ فسادی اور اللہ کی تعلیمات کو جھٹلانے اور انسانوں کو گمراہ کرنے والی مخلوق۔ جنات اور شیاطین بھی عملیات کے ماہر ہیں۔ ابلیس نے شیاطین کو کالا علم سکھایا۔ جنات کو انبیا‘ صالحین‘ اولیا اور علمائے کرام نے قرآن پاک کی تعلیمات دی اور وہ خود قرآن کے معلم بن گئے۔ بہت سے مسلمان جنات کے پاس بھی اسی طرح روحانی اور سفلی علوم ہیں جس طرح کہ ایک انسان کے پاس ہو سکتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ ریاض شاہ کے بابا جی روحانی محافل کا انعقاد کرتے تھے تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ جنات بھی مسلمان تھے لیکن وہ مذہب سے غافل تھے اور مذہب کے نام پر یعنی نیکی کی آڑ میں لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اور دلیل یہ ہے کہ اگر وہ اصلی باباجی ہوتے تو وہ زلیخا اور بلقیس کو برباد نہ کرتے۔ ان کے ہوتے ہوئے ریاض شاہ کو افیون منگوانے کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہی وہ تمہارے خون سے عملیات باندھتا۔ وہ نیکی اوربدی کے ڈرامے کرتے تھے تاکہ تم لوگوں کو متاثر کرسکیں۔ یاد رکھنا کوئی بھی سچا روحانی عامل کبھی ناپاک نہیں ہوگا اورخلاف شریعت کام نہیں کریگا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تمہارے حضرت جی نے جب زلیخا بیٹی کا علاج کیا تو ریاض شاہ اور باباجی کا سارا علم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اگر وہ اصلی بابا جی ہوتے تو وہ حضرت جی کی قدم بوسی کرتے۔ میرے بابا جی گندے اور گھناؤنے علم نہیں کرتے‘ ملنگوں کے روپ میں درباروں میں ظاہر نہیں ہوتے۔البتہ وہ مزاروں پر پردے میں رہ کر خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ تو شرارتی اور کم علم جنات کی نسل ہے جو اپنے اسلاف کی نافرمانی کرتی ہے۔ میاں ۔۔۔ جنات اور انسانوں کے کئی معاملات میں قدر مشترک ہے۔ جیسے کہ ہمارے ہاں ضعیف العقیدہ مسلمان انسان کم علم اور جاہل مسلمان ۔انہیں دیکھو کہ وہ اپنی مذہبی رسومات کیسے ادا کرتے ہیں‘ مذہب پر کتنے کاربند رہتے ہیں۔ پا کی ناپاکی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ یہی حال جنات کا بھی ہے۔ ہم بڑے خوش قسمت مسلمان ہیں شاہد میاں ۔۔۔ لاکھ گناہ کرکے بھی معافی مانگیں تو سوہنا رب ہمیں معاف کر دیتا ہے بشرطیکہ ہم گناہ کے نتائج سے پوری طرح آگاہ نہ ہوں۔ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ہے کیونکہ یہ اس ذات مصور کی کامل تخلیق ہے۔ شرپسند جنات کو ان کے گناہوں پر معافی ملنا بہت مشکل ہے۔ انہیں معافی مانگنے کے لئے بہت مشقت کرنی پڑتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جنات اور شیاطین نے آگ سے جنم لیا۔ اسی لئے ان کے ضمیر میں شر فساد اور ظلمت کا تناسب زیادہ ہے۔ شیاطین کو تو معافی ملے گی ہی نہیں جنات کو مل سکتی ہے لیکن یہ سب اللہ اور ان کے بیچ کا معاملہ ہے۔ جو جنات انسانی بستیوں میں آ کر شرارتیں کرتے ہیں ان کا سخت محاسبہ ہوتا ہے۔ میری بات یاد رکھنا۔ ریاض شاہ اور انکے بابا جی کا بھی یہی حال ہو گا۔ البتہ وہ غازی ۔۔۔ قدرے معصوم ہے۔ ابھی نابالغ ہے۔ مجھے یقین ہے اگر وہ ان کے دائرہ سحر سے نکل گیا تو نیک جنات کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ میری باتوں سے کچھ سمجھ آیا ہے‘‘
میں شاہ صاحب کی باتیں غور سے سن رہا تھا لیکن ذہن پر یادوں کی یورش ہو رہی تھی۔ بابا جی اور غازی کا چہرہ کسی طرح ذہن کی سکرین سے غائب نہیں ہو رہا تھا۔ آخر میں نے کہا
’’شاہ صاحب میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے یہ بتائیں کہ غازی نے مجھے اسم اعظم کا علم کیوں سکھایا۔ ٹھیک ہے وہ مسلمان جن تھا لیکن جب وہ گمراہ گروہ میں شامل تھا تو اس نے مجھ پر عنایت کیوں کی‘‘
’’میں نے تمہیں کہا ہے کہ جنات عملیات کا علم رکھتے ہیں۔ غازی ان دنوں علوم سیکھ رہا ہو گا۔ اسے تم اچھے لگے ہو گے بلکہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ اس نے تمہیں یہ علم سکھا دیا۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ ایک بار ابلیس نے اللہ کے ایک پیغمبر کو ایک آیت مبارکہ پڑھنے کے لئے دی تھی کہ جب بھی اس کو پڑھیں گے شیطان کے سحر سے آزاد ہو جائیں گے۔ یہ گمراہ جنات کی روایت میں بھی شامل ہے۔ میں نے بابا جی کے ساتھ مل کر ہزاروں ایسے کیس حل کئے ہیں۔ کئی عامل جنات سے علم حاصل کرکے انہیں معاف کرتا تھا۔ اگر غازی نے تمہیں یہ علم سکھایا ہے تو سمجھو اس نے تمہیں ایک تحفہ دیا ہے لیکن شاہد میاں ۔۔۔ یاد رکھنا ۔۔۔ جنات اپنی خدمت‘ احسان اور تحفہ کبھی نہیں بھولتے اگر انہیں کوئی دکھ پہنچائے گا تو وہ اس انسان کی نسلوں سے بھی حساب چکتا کرتا رہے گا۔ اسی لئے تو میں کہتا ہوں جنات کی دوستی پہاڑوں سے زیادہ وزنی ہوتی ہے۔ ایک نیک اور پرہیزگار عامل ہی کسی اصیل جن کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے‘‘
’’اب ایک اور سوال شاہ صاحب‘‘ میں نے مودبانہ انداز میں کہا
’’کہو‘‘
’’اصلی بابا جی کے ساتھ آپ نے ریاض شاہ کا معاملہ ڈسکس نہیں کیا‘‘
’’کیا ہے دراصل میں اس میں میری بھی بہت کوتاہیاں ہیں۔ میں بابا جی کو آزاد کرنے کے بعد ایسی عبادات میں مصروف ہو گیا جو مجھے جنات اور شیاطین کے شر سے مستقبل میں محفوظ رکھ سکتی تھیں۔ کوئی روحانی عامل بھی جب جنات کی دوستی سے دستبردار ہوتا ہے تو اس کو سخت امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت وہ ساری شیطانی قوتیں اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتی ہیں جن سے تمام عمر وہ لڑتا رہا ہوتا ہے۔ پس میں کئی سال تک اس محاسبے کے عمل سے گزرتا رہا ہوں۔ لیکن پھر بھی مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا پڑتا ہے۔ دیکھ لو۔ میرے بچے اور یہ گھر کس حال میں ہے حالانکہ میں ایک صالح جن اور اس کے خاندان سے رابطہ رکھتا تھا مگر مجھے خراج دینا پڑا ہے‘‘
’’بابا جی آپ کے پاس آتے ہیں؟‘‘
’’ہاں جب میرا دل اداسی سے بھر جاتا ہے اور کسی سخت مشکل میں مبتلا ہوں تو بلاتا ہوں لیکن اب ان سے خدمت نہیں لیتا اس لئے محنت مزدوری کرتا ہوں‘‘
’’بابا جی سے آخری ملاقات کب ہوئی!‘‘
’’آج رات کو‘‘ شاہ صاحب کے لبوں پر آسودہ سی مسکان ابھری۔ انہوں نے ہی کہا تھا کہ شاہد میاں کو ایک خوبصورت نگینے کا تحفہ دے دینا‘‘
’’کیا یہ بابا جی نے کہا ہے لیکن وہ مجھے کیسے جانتے ہیں۔ میرا مطلب ہے میں تو آپ والے بابا جی سے نہیں ملا‘‘
سید اقبال شاہ میری بات سن کر ہنس دئیے ’’شاہد میاں اب اتنے زیادہ سوال نہ کرو تو اچھا ہے۔ جس روز تم مجھ سے ملنے آئے تھے میں اس روز سارا کچھ سمجھ گیا تھا اور میں نے بابا جی کے سامنے تمہارے حالات رکھ دئیے تھے۔ وہ خود بھی ریاض شاہ کے اعمال سے رنجیدہ تھے‘‘
’’شاہ صاحب‘‘ میں بے تاب ہو کر بولا ’’خدارا کیا ایک بار ایسا ہو سکتا ہے کہ میں اصلی بابا جی سے مل لوں تاکہ میرے سارے زخم دھل جائیں‘‘
’’دیکھو میاں یہ تو ان سے پوچھنا پڑے گا اگر اجازت مل گئی تو تمہیں میں بلواؤں گا۔ اب مجھے اجازت دو مجھے کہیں کام سے جانا ہے ۔اپنا نگینہ لے لو‘‘
میں نے جگمگاتے جواہرات میں سے ایک انگشتری اٹھائی جس میں نیلم کا پتھربڑا تھا۔شاہ صاحب نے اپنے ہاتھوں سے انگوٹھی میرے دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر چڑھائی اور میرے ماتھے پر کچھ پڑھ کر پھونک ماری۔ اور پھر جیب سے ایک کاغذ نکال کر میرے سامنے کر دیا جس پر لکھا تھا
’’شاہد میاں کو نیلم کا پتھر پسند آئے گا اسے دے دینا‘‘
’’یہ ۔۔۔ کیا ہے‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا ‘‘
’’بس ۔۔۔ میں یہی تمہیں دکھانا چاہتا تھا۔ ایک تحفہ تمہیں غازی نے دیا تھا۔ وہ پتھر اگر سنبھال کر رکھے ہیں تو انہیں تقسیم کر دینا۔ مگر ان کا صدقہ ضرور اتار دینا اور کوئی مسئلہ ہے تو بتا دو‘‘
ان دنوں میری پریشانیوں میں ایک اہم پریشانی گھر کی تھی۔ میں اپنا گھر تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ میں نے جھٹ سے کہا ’’شاہ صاحب میرے پاس پلاٹ تو ہے مگر مکان تعمیر نہیں ہو رہا‘‘
شاہ صاحب چند لمحے خاموش رہے اور خلاؤں میں گھورنے لگے۔ ان کے لبوں کے ارتعاش سے معلوم ہو رہا تھا کچھ پڑھ رہے ہیں پھر بولے ’’انشاء اللہ دو ماہ بعد تمہارے گھر کی تعمیر شروع ہو جائے گی اللہ وسیلہ پیدا کرے گا لیکن اب میری ایک خواہش ہے‘‘
’’جی حکم‘‘ میں سرتاپا عقیدت کے ساتھ بولا
’’جب تک اب میں نہ بلاؤں میرے پاس نہ آنا‘‘ وہ کمزور سی آواز میں بولے
’’لیکن شاہ صاحب میں پھر سے ادھورا ہو جاؤں گا آپ کے بغیر ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میاں اب تمہیں اس عہد کی پابندی کرنی ہو گی۔ عہد توڑا تو اپنے اوپر سات جنات سے محروم ہو جاؤ گے‘‘
’’جج جی ۔۔۔ کیا فرمایا آپ نے‘‘
’’ہاں ۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں تم اسم اعظم اور بزرگوں سے حاصل کردہ وظائف کا ذکر کرتے رہتے ہو‘ اللہ تعالیٰ اپنے ذاکر بندوں پر اپنی مخفی مخلوق کو مامور کر دیتا ہے۔ ادھر دیکھو تمہیں یہ نظر نہیں آئیں گے۔ یہ سخت خفا ہیں کہ تم یہاں کیوں آئے۔ یہ دروازے سے باہر کھڑے ہیں۔ یہ تمہیں تنگ نہیں کریں گے۔ بس تمہیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کی عبادت اور ذکر الہٰی سے کبھی غافل نہ ہونا۔ ایک روز تم بہت کچھ حاصل کر لو گے۔ اللہ نے تمہیں کسی خاص خدمت کے لئے منتخب کیا ہے تو اس اعزاز کی عزت رکھنا۔ سمجھداری اور حوصلے کے ساتھ اس صبر آزما دور سے گزر جانا۔ ہر معاملہ اللہ کا ذکر کرکے اس کے سپرد کر دینا تمہاری مشکلات دور ہو جائیں گی‘‘
’’انشاء اللہ ۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی‘‘ میں نے پورے خلوص کے ساتھ وعدہ کیا اور اٹھنے سے پہلے ایک سوال کرنا ضروری سمجھا ’’شاہ صاحب بابا جی اور بزرگوں نے مجھے جو وظائف دئیے تھے کیا میں انہیں کسی کو دے سکتا ہوں‘‘
’’تمہارے پاس کون کون سے وظائف ہیں‘‘ انہوں نے سوال کیا تو میں نے جتنے وظائف یاد تھے انہیں سنا دئیے۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہے اور بولے ’’اس پر تمہیں فی الحال کچھ نہیں بتا سکتا۔ میں بابا جی سے دریافت کرکے ان کی صحت معلوم کروں گا البتہ ٹاہلی والی سرکار اور بابا تیلے شاہ کے وظائف کی اجازت تمہیں انہیں سے لینی ہو گی۔ البتہ اسم اعظم کی اجازت ہے۔ ویسے میں تمہیں اور مختصر سے اسم اعظم بتا دیتا ہوں۔ لوگوں کی بھلائی کے لئے پڑھنے کے لئے دے سکتے ہو۔ لیکن یہ وظیفہ نہیں ذکر کے طور پر پڑھنے کی ہدایت کرنا۔ ذکر اور وظیفہ میں فرق ہے‘‘ شاہ صاحب نے مجھے وظیفے اور ذکر کی نزاکتوں اور افادیت سے آگاہ کیا اور پھر مجھے چند اسمائے اعظم بتائے۔ جن کی اجازت عام بھی دی۔ یہ میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور ملتجی ہوں کہ وہ ذکر الہٰی کے بعد میری مغفرت اور سختیاں دور کرنے کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ جب سے میں نے اس داستان کو رقم کرنا شروع کیا ہے مختلف مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے مجھے۔ بلکہ جان جاتے جاتے بچی ہے۔ جس روز میں نے یہ داستان رقم کرنے کے لئے قلم اٹھایا سید اقبال شاہ کی عنایت کردہ انگشتری غائب ہو گئی۔ یہ میں عرض کر دوں کہ ان کی دعا سے حیرت انگیز طور پر دوسرے ماہ ہی میرے گھر کی تعمیر شروع ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا جہاں کی نعمتوں سے سرفراز کیا لیکن سید اقبال شاہ صاحب کی طرف سے ابھی تک باقاعدہ ملاقاتوں کا وقت نہیں آیا۔ کچھ ماہ پہلے ان سے ایک بڑے سرکاری آفیسر کے گھر ملاقات ہو گئی تھی۔انہیں دیکھ کر میرے تو جیسے خزاں رسیدہ دل پر بہار آگئی تھی ۔ انہوں نے باقاعدہ بلانے کا وعدہ کرلیا ہے ،دیکھئے اب کب اصلی باباجی اور غازی سے ملاقاتیں کب شروع ہوتی ہیں۔۔۔۔اور ان کے کون سے بھید سامنے آتے ہیں۔۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ جونہی یہ ملاقاتیں شروع ہوں گی میں اپنے تمام رابطہ میں رہنے والے پرستاروں کو بتادوں گا۔۔ البتہ۔میں ابھی بھی داتا دربار بابا تیلے سے ملاقات کی تمنا لے کر جاتا ہوں۔ دعا کریں یہ ملاپ بھی پھر سے ہو۔ سید اقبال شاہ صاحب کے دئیے ہوئے ان اسمائے اعظم کا ذکر شب و روز کریں خاص طور پر نماز تہجد کے بعد۔ اس کی افادیت بڑھ جائے گی۔
-1 یا معطی یا منعم یا نافع یا حنان یا منان بحق یا سلام علی کل شئی قدیر۔
اپنے ہر طرح کے جائز معاملات کے لئے اس اسم اعظم کا ذاکر کبھی مایوس نہیں ہو گا۔ رزق میں کشادگی‘ حسب خواہش نوکری اور کاروبار کے تحفظ اور وسعت کے لئے اس اسم اعظم کا ذکر پاکیزگی کے ساتھ نماز تہجد کے بعد کرتے رہنے سے مقاصد پورے ہوں گے۔
یا رحیم یا باعثُ بحق یا رزاق واللہ خیرالرازقین
(تمام شد)