رول ماڈل

رول ماڈل
رول ماڈل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جو بھی رول ماڈل ہو ،جو بھی ایک استاد ہو وہ اپنی جگہ ایک الگ شخصیت ہے۔اس کو بنانے کے اندر ،اس کی ارتقاء میں جو ایک بہت بڑا رول ہے وہ میرے خیال میں ایک طالب علم کا ہے۔طالب علم اپنی طلب میں کس قدر رحجان رکھتا ہے۔جس کی وجہ سے زمانے میں ایک اچھا اُستاد پیدا ہوتا ہے۔اشفاق صاحب کہا کرتے تھے کہ میں بڑا اُستاد نہیں ہوں ۔لوگ مجھے بڑا اس لیے بنا دیتے ہیں ،کیونکہ زمانہ طالب علموں سے خالی ہے۔میرے بھی استاد رہے ہیں ۔رول ماڈل کے طور پر۔ان دنوں میں نے کبھی بھی کچھ سوچا نہیں تھا ۔میں خدا کو جاننا چاہتا تھا۔جب میں نے احادیث کا مطالعہ کیا۔وہ دور بہت ڈِپریشن کا تھا۔اس کا میں نے حل یہ نکالا کہ میں فجر پڑھنے کے بعد چھت پہ چلا جاتا تھا اور احادیث پڑھتا تھا۔گرمیوں میں دیر تک میں احادیث پڑھتا رہتا تھا۔وہ جو ماحول بنتا تھا حدیث پڑھتے ہوئے،وہ ایسا لگتا تھا کہ میں بھی ان صحابہ میں گھوم رہا ہوں۔تو میں اس نشے سے باہر نہیں آنا چاہتا تھا،کیونکہ وہ زمانہ وہ تصویر آنکھوں کے سامنے چل رہی ہوتی تھی۔میں پروفیسر احمد رفیق صاحب سے اکثر کہا کرتا تھا،کہ آپ اتنے لیکچرز دیتے ہیں ۔آپ سیرت پہ کبھی لیکچر دیں۔لیکن استاد نے نہیںیہ لیکچر نہیں دیا۔کیوں؟اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ سیرت پہ بات کرنا شاید ایک بڑا مشکل معاملہ اس لیے کہ آپ کی آبجیکٹیویٹی وہاں ختم ہو جاتی ہے۔جب آپ بات کرتے ہیں تو لوگ آپ سے وجہ مانگتے ہیں۔لاجک مانگتے ہیں۔پھر آپ صحیح جواب نہیں دے پاتے کہ آپ کو توہین لگتی ہے اپنے محمد ﷺ کی۔تو شاید میرے خیال میں جو شخص پیار کرنے والا ہو ۔وہ حجاب کرتا ہے ،کہ ساری گفتگو حجاب میں کی جائے۔بجائے اس کے کہ میں سر عام یہ گفتگو کروں۔

خیال ہے کہ اگر اچھے استاد ہوں گے تو کیا وہ طالبعلم کا جو نظریہ ہے اس کو بدل کر اچھا بنا سکتے ہیں ۔میں اس کو بالکل اور طرح سے دیکھ رہا ہوں۔میرے خیال میں اگر ایک اچھا استاد زمانے میں موجود ہے ، تو یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس زمانے میں اچھے طالب علم بھی موجود ہوں گے۔ایک مثال دیتا ہوں، کہ صحابہ کے دل میں خیال آیا ،کہ ہمارے دل جب رسول پاک ﷺ کے پاس بیٹھتے ہیں تو ایک کیفیت ہوتی ہے۔جب ان کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں تو الگ کیفیت ہوتی ہے۔اب یہ علمی سوال نہیں ہے۔ کیفیت کا سوال ہے۔صحابہؒ نے اس بات کو اپنے پاس رکھا نہیں ۔رسول پاک ﷺ کے پاس گئے ۔پوچھا۔ یارسول اللہﷺ!دل کی کیفیت بدل جاتی ہے کیا یہ منافقت تو نہیں؟اب اس سوال کی باریکی دیکھیں کہ طالب علم اپنی کیفیت بیان کر رہا ہے۔اب استاد نے اس سے بھی بڑھ کے جواب دینا ہے ۔اس سے معاشرے میں طالب علم اور استاد کا ایک بیلنس پیدا ہوتا ہے۔رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ یہی عین ایمان ہے ۔ورنہ اگر یہی ہوتا رہے کہ جو دل بدلتے ہیں ،یہی کیفیت اگر مسلسل رہے تو آسمانوں سے فرشتے نیچے اتر آئیں۔اس ایب نارمیلٹی کو ختم کرنے کے لیے واپس اپنی اس دنیا میں جانا ہی مناسب ہے۔اس میں طالب علم کا بھی اتنا ہی رول ہے جتنا استاد کا ہے۔
اب غور کریں کہ دو بڑے اُستاد ہیں۔حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ۔حضرت ابوبکرصدیقؓ سے بڑاُستاد کوئی نہیں ہے۔لیکن حضرت ابوبکرصدیق کا کوئی طالب علم نہیں ہے۔حضرت عائشہؓ کے مکہ اور مدینہ میں سات سو سے زیادہ طالب علم ہیں۔اور یہ مرد طالب علم ہیں۔خواتین اس کے علاوہ ہیں۔اور سکالر ز اس میں شامل نہیں ہیں۔اب حضرت عائشہؓ نے ایک خواب دیکھا۔اور آپؓ نے اپنے والد کو کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے۔اور اس میں میں نے تین چاند اپنے کمرے میں اترتے دیکھے۔آپؓ نے خواب بتایا لیکن والد نے اس کا جواب نہیں دیا۔ کیونکہ حضرت عائشہؓ تربیت رسول ﷺ ہیں۔آپؓ نے پوچھا کہ تمھارا کیا خیال ہے اس خواب کے بارے میں؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مجھے لگتا ہے میرے ہاں رسول پاک ﷺ سے اولاد ہو گی۔ حضرت ابو بکرصدیق خاموش رہے۔رسول پاک ﷺ کا وصال ہوا۔جب حضرت عائشہ سے ملاقات ہوئی تو عائشہ سے کہتے ہیں ،کہ پہلا چاند تمھارے آنگن میں اُترا۔دو کا انتظار کرنا۔کیونکہ اسی جگہ پہ رسول پاک ﷺ کے ساتھ حضرت عمر فاروقؓ اورحضرت ابوبکرصدیق ؓ بھی دفن ہیں۔ تو انھوں نے تین چاند کو بیان کیا مختلف طریقے سے۔حالانکہ وہ بڑی اُستاد ہیں تاریخ میں۔لیکن والد نے ایک بالکل ہی اور رنگ دیا جس کا کوئی نہیں بتا سکتا تھا،کیونکہ چاند کی تعبیر ہمارے علماء بھی اولاد سے ہی کرتے ہیں۔موت سے نہیں ہو سکتی۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -