چودھری شجاعت حسین کی کتاب (2)

چودھری شجاعت حسین کی کتاب (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چودھری شجاعت حسین کی کتاب میں سب سے بڑی کمی میں نے یہ محسوس کی ہے کہ انہوں نے واقعات و حالات کا جائزہ بڑے سرسری انداز میں لیا ہے۔ وہ حالات اور واقعات جو آپ پر گزرے ہوں، اسے بیان کرتے ہوئے ۔آپ کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اور جن واقعات اور حالات کا کوئی شخص محض تماشائی ہو اس کا کسی واقعہ کو بیان کرنے کا انداز اور ہوتا ہے چودھری شجاعت حسین نے ہر واقعہ ہی اپنی کتاب میں ایسے بیان کیا ہے جیسے وہ محض تماشائی ہوں۔ سیاسی حالات و واقعات بدلنے میں چودھری شجاعت کا کردار بہت کم نظر آتا اور حالات و واقعات کے مطابق خود ڈھل جانا چودھری شجاعت کا بقول چودھری شجاعت حسین جنرل ضیاء الحق نے جب 1983ء میں اپنی مجلس شوریٰ کا ممبر نامزد کیا تو یہ اقتدار کے ایوانوں میں ان کا پہلا قدم تھا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دور میں اقتدار کے ایوان میں پہلا قدم رکھنے والے چودھری شجاعت حسین کو سیاست میں عروج اس وقت حاصل ہوا جب جنرل پرویز نے اپنی باوردی صدارت بلکہ عملی طور پر فوجی آمریت کے سائے میں ظفر اللہ جمالی کے بعد ڈیڑھ ماہ کے لئے وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

چودھری شجاعت اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف نے چونکہ میرا نام خود تجویز کیا تھا اس لئے میں نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری قبول کر لی یہ کیسا سچ ہے اور سچ بھی رسوائی والا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ مسلم لیگ (ق) یا قومی اسمبلی نہیں کرتی تھی بلکہ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ فیصلوں سے وزیراعظم تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ چودھری شجاعت حسین کو ڈیڑھ ماہ کے لئے وزیراعظم بنانے کے ساتھ ہی جنرل پرویز مشرف کی طرف سے یہ اعلان بھی کر دیا گیا تھا کہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم شوکت عزیز ہوں گے وہ شوکت عزیز جو ابھی قومی اسمبلی کے ممبر بھی نہیں تھے۔ مسلم لیگ (ق) کس طرح کی سیاسی جماعت تھی کہ اس جماعت کے قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو وزیر اعظم منتخب کرنے کے لائق نہ سمجھا گیا۔ خود چودھری شجاعت حسین کو بھی صرف ڈیڑھ ماہ کی وزارتِ عظمیٰ کے لئے اہل سمجھا گیا۔

چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ انہوں نے اس مختصر ترین مدت کے لئے وزیر اعظم کا عہدہ کیوں قبول کیا۔ کیا صرف اپنے نام کے ساتھ سابق وزیر اعظم پاکستان لکھوانے کے لئے؟ شوکت عزیز کا نہ تو کوئی سیاسی پس منظر تھا اور نہ ہی ساڑھے تین سال کے لئے وزیراعظم رہنے کے بعد ان کا پاکستان میں کوئی مستقبل تھا۔ 2008ء کے بعد دس سال گزر چکے ہیں۔ شوکت عزیز کے بارے میں پاکستان کے عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ہم پر جس شخص کو ساڑھے تین سال تک وزیر اعظم کے طور پر مسلط کیا گیا تھا۔ اب وہ کہاں ہے اور کیا کام کر رہا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے ایسے شخص کی خاطر وزارت عظمیٰ چھوڑ کر ملک و قوم کی کیا خدمت کی تھی؟ کیا چودھری شجاعت حسین میں اتنی قابلیت بھی نہیں تھی کہ شوکت عزیز سے قدرے بہتر وزیر اعظم ثابت ہو سکتے؟ چودھری شجاعت حسین نے وزیر اعظم بنانے والوں سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ مجھے صرف ڈیڑھ ماہ کی وزارت عظمیٰ ہی کے قابل کیوں سمجھا گیا۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ فوجی آمر اتنے نازک مزاج اور بد دماغ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے سیاست دانوں کو کب اس طرح کا سوال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور اس سچ کا چودھری شجاعت سے بہتر کس کو علم ہوگا۔


ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے خلاف جوہری توانائی کی منتقلی کا بے بنیاد الزام لگا کر ان سے ایک اعترافی بیان لینا اور اپنے قومی ہیرو کو کسی جرم کے بغیر قوم سے معافی مانگنے پر مجبور کرنا جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کا ایک شرمناک ترین واقعہ ہے۔ پرویز مشرف نے یہ ذمہ داری چودھری شجاعت حسین کو سونپی تھی کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو اعتراف جرم پر مجبور یا آمادہ کریں۔


چودھری شجاعت نے یہ واقعہ اپنی کتاب میں بیان کیا ہے لیکن اسے بھی تشنہ اور نا مکمل چھوڑ دیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے ایک پیسے کی بھی بد دیانتی نہیں کی تھی۔ ان کے خلاف جوہری توانائی کی فروخت کا الزام بھی یکسر جھوٹ تھا۔ پھر ڈاکٹر عبدالقدیر سے اعترافی بیان لینے کا کیا جواز تھا۔ قوم و ملک کے ایک عظیم محسن کو بے گناہی اور معصومیت کے باوجود اس طرح سے رُسوا کر کے ہم نے کون سی قومی خدمت سر انجام دی ہے۔ پھر چودھری شجاعت حسین نے پرویز مشرف کے ان وعدوں اور یقین دہانیوں کا بالکل ہی ذکر نہیں کیا جو اعترافی بیان دینے کی صورت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ کی گئی تھیں۔ ڈاکٹر اے کیو خاں نے تو پاکستان کی خاطر غیر معمولی قربانی دے دی اور وہ جرم قبول کر لیا جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔

ڈاکٹر صاحب کے پاس جنرل پرویز مشرف کے ایلچی اور پیامبر بن کے چودھری شجاعت حسین گئے تھے۔ اب یہ اخلاقی ذمہ داری چودھری شجاعت کی بنتی تھی کہ وہ پرویز مشرف کو وہ تمام وعدے پورے کرنے کے لئے کہتے جو ڈاکٹر صاحب سے کئے گئے۔ لیکن چودھری شجاعت حسین جس طرح نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مخالف ہونے کے باوجود اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اور جس طرح لال مسجد کا سانحہ روکنے میں وہ اپنی ناکامی اور بے بسی کا اعتراف کر چکے ہیں اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے وعدوں پر ان سے عمل کروانا بھی چودھری شجاعت حسین کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ جن سیاست دانوں کا اقتدار ایک فوجی ڈکٹیٹر کا مرہونِ منت ہو بلکہ جو ایوان اقتدار میں موجود ہی فوجی آمر کی نوازشات اور احسانات کی وجہ سے ہوں وہ حکمرانی کی مسند پر بیٹھے ہوئے بھی اتنے ہی آزاد و خود مختار ہوتے ہیں جتنی آزادی پنجرے میں اسیر ایک پرندے کو ہوتی ہے۔


مجھ کو آزادی ملی بھی ہے تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے

چودھری شجاعت حسین کی کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے۔ ’’پاکستان مسلم لیگ کا دور حکومت (2002ء تا 2007ء) چودھری صاحب اسی مسلم لیگ کے صدر تھے۔ اس دور میں پاکستان کے صدر ایک حاضر سروس فوجی جرنیل تھے یعنی چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف چودھری شجاعت حسین کی پوری کتاب میں یہ سچ بیان نہیں کیا گیا کہ اس طرح کا نظام حکومت قومی مفادات کے لئے کتنا مضر اور نقصان دہ ہوتا ہے چودھری شجاعت حسین تو 2007ء کے بعد اگلے 5 سال کے لئے بھی جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا صدر دیکھنا چاہتے تھے۔ چودھری شجاعت حسین جنرل پرویز مشرف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ صرف مسلم لیگ (ق) کی پنجاب میں جیت ہی اگلے 5 سالوں کے لئے پرویز مشرف کی صدارت کی ضمانت ثابت ہو سکتی ہے۔ چودھری شجاعت کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کو آئندہ 5 سال کے لئے صدارت کا لالچ دینا بھی چودھری شجاعت اور ان کی جماعت کے کام نہ آیا۔ کیوں کہ پرویز مشرف اپنے اقتدار کے لئے چودھری شجاعت کی مسلم لیگ کو جس طرح سے اور جس حد تک استعمال کرنا چاہتے تھے وہ کر چکے تھے اور صدارت کے اگلے دور کے لئے وہ پیپلزپارٹی کی سیاسی اور عوامی طاقت پر انحصار کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔

پرویز مشرف کی سوچ یہ تھی کہ مسلم لیگ اور چودھری شجاعت وغیر ہ اب اپنی سیاسی قوت کھو بیٹھے ہیں اس لئے مستقبل میں ان کے ساتھ تعاون کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن سچ یہ تھا کہ 2007ء کے بعد جنرل پرویز مشرف اور چودھری شجاعت کی جماعت دونوں کا ہی مستقبل روشن نہ تھا۔ حالات و واقعات تبدیل ہو چکے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے لئے تو ملک میں آنا بھی ممکن نہیں رہا کیوں کہ ان میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کر سکیں۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب کے حرف آخر میں اس بات پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ ان کی جماعت ہر طرح کے مشکل حالات میں اپنا سیاسی وجود قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ ملکی اور غیر ملکی تمام تر سازشوں کے باوجود آگے بڑھ رہی ہے۔ مجھے چودھری شجاعت حسین کا یہ سچ پڑھ کے بڑی حیرت ہوئی ہے کہ ان کی جماعت آگے بڑھ رہی ہے۔ جب کہ حقائق یہ ہیں کہ چودھری شجاعت حسین خود نہ تو 2008ء کے الیکشن میں اور نہ ہی 2013ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو سکے ہیں۔ حتیٰ کہ ضلع کونسل گجرات اور بلدیہ گجرات سٹی میں بھی چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے سیاسی حریفوں کو ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

آخر میں مجھے چودھری شجاعت حسین کی ایک حیرت آمیز بے خبری اور لا علمی کا ذکر بھی کرنا ہے۔ 1977ء کے الیکشن کے حوالے سے چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ’’چودھری پرویز الٰہی پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کر رہے تھے۔ ایک پولنگ اسٹیشن پر انہوں نے دیکھا کہ ہماری پارٹی کا بیلٹ بکس ہی نہیں۔ انہوں نے ریٹرننگ آفیسر سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے چھپڑ (تالاب) کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ دیکھیں، سامنے چھپڑ میں تیر رہا ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ 5 مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے اور سابق وزیر اعظم پاکستان کو یہ بھی علم نہیں کہ پولنگ اسٹیشن پر الگ الگ بیلٹ باکس نہیں ہوتے۔ تمام امیدواروں کے نام اور انتخابی نشانات بیلٹ پیپر پر شائع اور ووٹر اپنی پسند کے امیدوار کے انتخابی نشان کی شناخت کر کے اس پر مہر لگاتا ہے اور ووٹ ایک ہی بیلٹ باکس میں ڈالے جاتے ہیں۔ جب امیدواروں کے علیحدہ علیحدہ بیلٹ باکس ہوتے ہی نہیں تو پھر چودھری شجاعت حسین نے یہ واقعہ کس بنیاد پر بیان کیا ہے کہ ہماری پارٹی کا بیلٹ باکس تالاب میں پھینک دیا گیا تھا۔1977ء کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کے الگ الگ بیلٹ باکس نہیں تھے۔ اس لئے بیان کیا گیا واقعہ سراسر غلط ہے۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -