مودی خود ”کورونا“ ہے

مودی خود ”کورونا“ ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بالآخر خلیجی ممالک میں بھی اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں عمانی شہزادی مونا بنت فہد السید نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو انتباہ کیا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی اور مظالم جاری رکھیں گے تو وہ دس لاکھ ہندوستانی کارکنوں کو عمان سے بے دخل کر دیں گے۔ ان سے پہلے متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند القسیمی نے ٹویٹ کیا کہ بے شک شاہی خاندان بھارت کے بہت قریب ہے، لیکن اس قسم کا رویہ قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سب کو کام کرنے کا پیسہ ملتا ہے، کوئی مفت کام نہیں کرتا۔
بھارت کی ایک ارب تیس کروڑ آبادی میں 22کروڑ مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں نفرت اور تعصب کی آگ میں جل رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کریک ڈاؤن سے لے کر متنازعہ شہریت ایکٹ تک امتیازی سلوک کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ متعصبانہ رویے میں کورونا وائرس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بھارت میں ایک مصنوعی فضا بنا دی گئی کہ کورونا صرف مسلمانوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ ان کے سیاست دان اور مختلف چینلز ایسا ماحول بنا رہے ہیں کہ مسلمانوں کا اس وائرس کو پھیلانے کا مقصد ہندوؤں کو مارنا ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلمان مخالف پوسٹیں لگا کر ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جا رہا ہے۔ مسلمانوں سے نفرت کا عالم یہ ہے کہ گجرات کے ایک ہسپتال میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کو مسلمان اور ہندو وارڈ میں علیحدہ منتقل کیا جا رہا ہے۔

بھارت کی مشہور خاتون ریسلر ببیتا پھوگاٹ نے اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا دیا ہے۔ کورونا کی آڑ میں مسلمان طلبہ کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ جب سے مودی حکومت آئی ہے ان پر ہونے والے ظلم کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، ان پر تشدد کیا گیا اور شہریت ایکٹ کی آڑ میں حراستی مراکز قائم کئے جا رہے ہیں۔ کورونا کے پھیلاؤ کو مسلمانوں کے سرتھوپنے کا یہ عالم ہے کہ ایک رکن اسمبلی کے گھر کے مزدور کو کام کے دوران چھینک آگئی تو ان کی اہلیہ کہنے لگی کہیں اسے کورونا وائرس تو نہیں، تو مزدور فوراً بولا میں ہندو ہوں۔ یعنی وائرس صرف مسلمان ہی پھیلا رہے ہیں۔ امریکا کے ایک اخبار نے لکھا کہ بھارتی وزارت صحت نے بار بار تبلیغی مراکز سے کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ کچھ حکومتی عہدیداروں نے انسانی بم اور کورونا جہاد کی اصطلاح استعمال کی جس کے بعد پورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایک مہم شروع ہوگئی اور بھارت میں مسلم مخالف حملے شروع ہوگئے۔ مارچ میں ایک خطبے کے دوران تبلیغی جماعت کے رہنما مولانا سعد خان دہلوی نے کہا کہ کورونا وبا خدا کی سزا ہے، اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ دہلی کے حکام نے مولانا کے خلاف عوام کی صحت کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں فوجداری مقدمہ درج کیا۔ تبلیغی جماعت کے مرکز کو سیل کردیا گیا۔

انتہا پسند تنظیم کے رہنما، راج ٹھاکرے نے زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغی جماعت کے ممبروں کو گولی مار دینی چاہیے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما، راجیو بیڈل نے کہا کہ تبلیغی اراکین انسانی بموں کی طرح آبادی سے گزر رہے ہیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کو ہمیشہ خونخوار آنکھوں سے ہی دیکھا ہے۔ 2002ء میں جب نریندر مودی وزیر اعلیٰ بنے، انہوں نے گجرات میں مسلمانوں پر حملہ کرایا۔ اس حملے میں 2000 معصوم مسلمان شہید ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد مودی کے بین الاقوامی سفر پر پابندی لگائی گئی اور امریکا نے بھی ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ پابندی ختم ہوگئی۔ مودی نے مسلمانوں کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو لے کر ہندوؤں کے دلوں میں زہر گھولا۔ ان کو مذہبی رسومات سر انجام دینے کی اجازت بھی محدود ہو گئی۔ عیدالاضحی میں جانوروں کے ساتھ مسلمان بھی ذبح ہوئے۔ پھر مقبوضہ کشمیر کو زبردستی بھارت کا حصہ بنا کر انھوں نے اپنے مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور ابھی تک وہ مسلمانوں پر تشدد کرنے کے گھٹیا بہانے ڈھونڈتے ہیں۔


او آئی سی کا قیام 1969 ء میں ہوا۔ اس تنظیم میں 57ممالک شامل ہیں اور ان ممالک میں کل آبادی ایک ارب تیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی مسلم تنظیم اگر متحد ہو کر کام کرے تو دنیا بھر میں مسلمانوں کے حقوق کا ضامن بن سکتی ہے۔ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہی قریب ایک کروڑ پچاس لاکھ ہندو ملازمت کر رہے ہیں۔ اگر یہ ممالک آدھے ہندو نکال دیں تو بھارت پر بہت بڑا دباؤ آجائے گا۔ پاکستان نے تقریباً ہر پلیٹ فارم پر بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز اٹھائی ہے۔ اس کے با وجود عالمی برادری نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بھارتی اقدام پر بھی عالمی برادری کی طرف سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے کو نہیں آیا۔ ایسا بالکل نہیں کہ مسلم ممالک کے دلوں میں بھارتی مسلمانوں کے لیے درد نہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ہونے کے باعث سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ تجارت صرف مسلم ممالک نہیں بلکہ بھارت کی بھی مجبوری ہے۔ بھارت تو کیا کوئی بھی ملک اتنے بڑے مسلم بلاک کا سامنا کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ یہ جو بھی ہو رہا ہے اسی لیے ہو رہا ہے کیونکہ مسلم ممالک متحد نہیں۔ اگر آج بھی ہم متحد ہو جائیں تو مسلمانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ صرف بھارت میں ہی نہیں ساری دنیا میں محفوظ کیا جا سکتا ہے اور انہیں جائز مقام دلوانے کے لیے راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -