کورونا کی لہر تیز
سیاسی ڈائری اسلام آباد
وفاقی دارالحکومت اور اس سے ملحقہ شہر راولپنڈی بھی ملک کے دیگر شہروں کی طرح مہلک کورونا وبا کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں جس طرح کورونا وائرس ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے اسے دیکھ کر پاکستان میں بھی خوف و ہراس کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ درحقیقت کورونا نے جس طرح ہندوستان میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے ایک سنگین نوعیت کی تنبیہ ہے کہ اگر حفاظتی اقدامات پر سختی سے عملدرآمد نہ کیا گیا تو خدانخواستہ ایسی صورت حال یہاں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اب بھی یہ صورت حال ہے کہ ہم اپنی آکسیجن کی کل پیداوار کا تقریباً 75فیصد کورونا مریضوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ملک کے بہت سے بڑے بڑے ہسپتالوں میں آکسیجن بیڈ 80سے 90فیصد تک مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ یہی حال مصنوعی تنفس والی مشینوں کی دستیابی کا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پمز ہسپتال میں مزید کورونا مریضوں کے داخلہ کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس ضمن میں فوری طور پر ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔
ملک میں ایک طرف کورونا کی لہر بپھر رہی ہے تو دوسری جانب لوگوں کو کورونا ویکسین لگانے کا عمل انتہائی سست روی کا شکار نظر آتا ہے۔ ابھی تک پاکستان خطے کے تمام ممالک سے ویکسین کے معاملہ میں پیچھے ہے بلکہ کافی پیچھے ہے۔ ایک طرف تو حکومت کی جانب سے ویکسین کی فراہمی خاصی محدود ہے تو دوسری جانب عوام بھی ویکسین لگوانے کے لئے زیادہ آمادہ نظر نہیں آ رہے اور اس ضمن میں مختلف تحفظات کا شکار نظر آتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی ایک بڑی تعداد بھی ویکسین کی افادیت سے کلی طور پر مطمئن نظر نہیں آتی جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں طبی عملہ اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے ویکسین لگوانے کے لئے اپنے آپ کو رجسٹر ہی نہیں کروایا۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے بازاروں میں ویسے ہی رش ہے۔ لوگوں کو سرے سے ہی کوئی پروا نہیں ہے۔ اولاً تو لوگ اس بیماری اور وائرس کے وجود ہی سے انکاری ہیں۔ اگر عوام اس بیماری کے وجود کو تسلیم کریں گے تو پھر ہی انہیں حفاظتی اقدامات اپنانے کے لئے راغب کیا جا سکتا ہے یا پھر اس ضمن میں کوئی تشہیری مہم کارگر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ حفاظتی اقدامات کے بارے میں آگہی اور پھر ان پر عملدرآمد کے مرحلے سے ہم بہت دور ہیں، تاہم لگتا ہے کہ بالآخر حکومت کو کورونا وبا کے مہلک اثرات کا ادراک ہو گیا ہے اگرچہ اس ضمن میں سندھ حکومت وفاقی حکومت سے بہت آگے جا رہی ہے لیکن اب وفاقی حکومت نے بھی صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ”ٹوئٹر“ پر انحصار کرنے کی بجائے ٹھوس اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس میں قابل ذکر بات ملک بھر میں حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد کے لئے پاک فوج کی تعیناتی ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر کی سربراہی میں این سی او سی ملک بھر کی پل پل کی صورت حال کو مانیٹر کرکے اقدامات کر رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل افتخار بابر نے ایک پریس کانفرنس میں پورے ملک میں فوجی دستوں کی تعیناتی کے حوالے سے آگاہ کیا تاکہ اس ضمن میں پریشان حال عوام کی ڈھارس بندھ سکے۔ پاک فوج کو آئین کے آرٹیکل 245کے تحت سول اداروں کی معاونت کے لئے طلب کیا گیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ملک بھر میں ہر ڈویژن کی سطح پر ایک بریگیڈیئر سول انتظامیہ کی معاونت کے لئے مامور کیا گیا ہے جبکہ ضلع کی سطح پر یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ کرنل کو سونپی گئی ہے تاہم اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ پاک فوج اس اضافی ذمہ داری کے لئے حکومت سے کسی طرح کا کوئی الاؤنس نہیں لے گی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاک فوج کی تعیناتی سے اس بات کے زیادہ امکان ہیں کہ عوام اب حکومتی اقدامات کو سنجیدگی سے لیں گے اور ان پر عمل پیرا بھی ہوں گے۔ ایک طرف جب فوج کو ملک بھر میں سول انتظامیہ کی معاونت کے لئے تعینات کیا جا رہا تھا تو ایسے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں سینئر اینکر حضرات سے ایک تفصیلی نشست کی جس میں ملک کی داخلی و خارجی صورت حال پر طویل گفتگو ہوئی۔ شنید ہے کہ اینکر حضرات نے جی بھر کر سوالات کئے اور آرمی چیف نے دل کھول کر تحمل سے تفصیلی جوابات دیئے۔ اگرچہ سننے میں آیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس گفتگو کے حوالے سے رازداری برتنے کی ہدایت کی تھی لیکن وفاقی دارالحکومت میں یہ گفتگو ایک کھلا راز بن کر رہ گئی ہے۔ آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے راز دانوں سے منسوب کرکے مختلف ایشوز پر دارالحکومت کے حلقوں میں سرگوشیاں جاری ہیں۔ اگر واٹس ایپ گروپوں میں اس گفتگو سے منسوب کئے جانے والے اقتباسات کی صحت درست ہے تو ان سے ملک کے داخلی و خارجی ایشوز کے مستقبل کے حوالے سے اہم معلومات سامنے آ رہی ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، افغانستان میں قیام امن وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے مستقبل کے حوالے سے اہم اشارے ملتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صحافیوں سے ملاقات کی ٹائمنگ بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ لگتا ہے کہ ملک کی داخلی و خارجی صورت حال ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوا چاہتی ہے جس کی پیش بندی کی جا رہی ہے۔
ایک طرف ملک کو کورونا کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر سیاسی انتشار اور محاز آرائی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں خوب گرما گرمی اور دھماچوکڑی نظر آئی بالخصوص سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال اور اس پر سپیکر کے دفتر سے انہیں شوکاز جاری ہونا ملک کی پارلیمانی سیاست کی تاریخ کے افسوسناک اوراق ہیں۔ سپیکر کے دفتر کا تقدس بھی مجروح ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ ایشو دوبارہ سر اٹھائے گا۔ اپوزیشن رہنما میاں شہباز شریف نے رہا ہوتے ہی کورونا وبا کے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ایک بار پھر اتفاق رائے کی پیشکش کی ہے لیکن اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حکومت اسے سنجیدگی سے لے گی اور اس پر کوئی مثبت ردعمل دے گی جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم کی سٹیئرنگ کمیٹی کے اہم اجلاس کے انعقاد کے بعد پی پی پی کو اپنے رویہ پر نظرثانی کی پیشکش،ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جبکہ عید کے بعد حکومت کے خلاف ایک تحریک چلانے کا بھی عندیہ دیا گیا۔ آئندہ آنے والے دن ملکی سیاست کے لحاظ سے خاصے اہم ہیں جبکہ جہانگیر ترین گروپ کی گزشتہ روز وزیراعظم سے ملاقات بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ بالخصوص ملتان میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے جس طرح ایک تقریر میں وزیراعظم عمران خان کی سامنے ترین گروپ کا نام لئے بغیر اسے آڑے ہاتھوں لیا اور وزیراعظم نے بھی اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس تناظر میں گزشتہ روز کی ملاقات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظرثانی کی درخواستوں کی قبولیت بھی ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس فیصلہ سے بار میں پائے جانے والے اضطراب میں کمی آئے گی،تاہم آنے والے دن سیاست کے لحاظ سے دلچسپ ہوں گے۔
جڑواں شہر اسلام آباد، راولپنڈی بھی کورونا کی زد میں، پمز میں مریضوں کے لئے گنجائش ختم
جنرل قمر جاوید باجوہ کی اینکر حضرات سے ملاقات، وفاقی دارالحکومت میں سرگوشیاں!
کورونا کے ساتھ ملکی سیاست میں انتشار بھی بڑھ گیا تحریک انصاف کے اندر سب اچھا نہیں