لائیوسٹاک کسان کے مشکل وقت کا ساتھی

لائیوسٹاک کسان کے مشکل وقت کا ساتھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app



پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے۔پاکستان کی آمدنی کا جی ڈی پی 23.1فیصد زراعت پر مشتمل ہے۔ لائیوسٹاک زراعت کا سب سے اہم جزوہے۔معیشت میں 8.5-9.0فیصد برآمدات میں لائیوسٹاک کا حصہ ہے۔ لائیوسٹاک مارکیٹ اور سرمایہ مہیا کرتا ہے، غریب دیہاتیوں کے لئے لائیوسٹاک ایسی نقد جنس ہے جس کو وہ کسی بھی وقت بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔ لائیوسٹاک کسان کا مشکل وقت کا ساتھی ہے جو اس کوفصل کی تباہی(خصوصاً بارانی علاقوں میں) جیسے مشکل حالات میں مدد مہیا کرتا ہے۔لائیو سٹاک سے دیہی علاقوں کے رہنے والے افراد اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ دیہات میں خواتین مرغیاں اوربکریاں پالتی ہیں ،اگر ان خواتین کو معمولی سی تربیت مہیا کردی جائے،جس سے وہ جانوروں کی بروقت ویکسی نیشن اور بیماریوں، علاج اور غذا سے واقف ہو سکیں تو انہیں نہ صرف جانوروں کی پرورش بہتر طور پر کرنے کے قابل بنائے گی، بلکہ اس کے نتیجے میں کام منافع بخش بھی ہو جائے گا،کیونکہ مرغیوں کا گوشت انڈے، بکریوں کا دودھ اور گوشت یہ سب بہت اہمیت کا حامل ہے اور وہی کوشش جو عموماً دیہاتی خواتین بغیر رہنمائی کے کررہی ہیں، اگر رہنمائی حاصل کرکے کریں تو دوگنا فائدہ ہوگا۔
اسی طرح دیہاتی علاقوں میں باربرداری ،دودھ اور گوشت کے لئے گھوڑے، گائے اور بھینسوں کی پرورش بھی معمول کی مشق ہے، اگر اس کام کو لائیوسٹاک اور ڈیری ڈیپارٹمنٹ کی رہنمائی اور مشاورت سے کیا جائے تو نتائج ناقابل یقین حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔دودھ کی پیداوار میں پاکستان 5واں بڑا ملک ہے اور آنے والے سالوں میں دودھ اور گوشت کی طلب میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے، لہٰذا اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سرمایہ کاری منافع بخش ثابت ہوگی۔پرائیویٹ سیکٹر ہمیشہ منافع کی شرح کو ذہن میں رکھ کر سرمایہ کاری کرتا ہے۔پاکستان میں لائیوسٹاک کے پیداواری عوامل نسبتاًسستے اور کم قیمت ہیں، اگر دودھ ہی کی مثال لیں تو پاکستان دنیا بھر میں دودھ کی سب سے زیادہ سستی پیداوار میں مشہور ہے۔مزدور کی اجرت بھی بہت سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے،کیونکہ قیمتوں کا تعین، طلب اور رسد سے ہوتا ہے اور پاکستان میں چونکہ افرادی قوت آبادی کے اضافے کی وجہ سے مسئلہ نہیں، لہٰذا افرادی قوت کی رسد میں رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے اجرتیں کم ہیں۔اگر دنیا بھر میں جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان مڈل ایسٹ اور ساﺅتھ ایسٹ ایشیا سے قریب واقع ہے۔دنیا کے یہ دونوں خطے لائیوسٹاک پراڈکٹس دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں اور لائیوسٹاک کی کمیابی کا شکار ہیں۔لائیو سٹاک انڈسٹری دنیا کے بیشترترقی یافتہ ممالک میں خاصی سبسڈائزڈ ہے، لہٰذا مقامی لائیوسٹاک شعبہ بہتر مواقع حاصل کرسکتا ہے۔
حکومت نے لائیوسٹاک کے شعبے میں خاصی پیش رفت کی کوشش کی ہے،تاکہ اس شعبے میں برآمدات کو مزید بڑھایا جا سکے اور مقامی منڈی میں بھی اس کی قیمتیں اور اشیاءعام آدمی کی پہنچ میں ہوں۔زراعت کو ملنے والے کل قرضے کا تقریباً15فیصد لائیوسٹاک کی اہمیت کے پیش نظر اس شعبے کو دیا جاتا ہے۔کچھ بنک اور حکومت بھی ایسی منصوبہ بندی کررہی ہیں کہ زیادہ قرضہ چھوٹے کسانوں اور ان دیہاتیوں کو دیا جائے ،جن کے پاس کاشت کے لئے زمین نہیں، تاکہ وہ مویشی پال کر ملک کی دودھ اور گوشت کی ضروریات کو پورا کرسکیں اور اپنے خاندان کا معاشی بوجھ بھی بطریق احسن اٹھا سکیں۔ کئی ایسے فنڈ اور بینکوں کی قرضہ سکیمیں اس سلسلے میں دیہی علاقوں میں قرضے کی سہولتیں مہیا کررہی ہیں ۔دوحکومتی گارنٹی کی کمپنیاں پرائیویٹ سیکٹر میں بھی لائیوسٹاک کے شعبے میںسہولتوں کو ترقی دینے اور بڑھانے کے لئے عملی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں، جن میں لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ اور پاکستان ڈیری ڈویلپمنٹ کمپنی شامل ہیں۔
مصنوعی نسل کشی کے لئے تقریباً30سال سے پبلک سیکٹر میں کام ہورہا ہے۔بیلوں کی قدرتی افزائش میں خاصی کمی ہونے کی وجہ سے بیلوں کی افزائش بڑھانے کے لئے مصنوعی نسل کشی کا کام ہورہا ہے اور اس کا رجحان اور ضرورت روز بروز بڑھتی جارہی ہے،جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے اندر بھی اس شعبے کی خاصی گنجائش ہے۔اس سلسلے کی ایک مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل حکومت پنجاب کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو کم آمدنی پر مشتمل افراد کو ہنرمند بنا کر باعزت روزگار کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل میں جہاں دوسرے 44سے زیادہ مارکیٹ کی طلب کے مطابق ہنر سکھائے جارہے ہیں، وہیں مصنوعی نسل کشی کا کورس بھی کروایا جاتا ہے، کیونکہ اگر ہم دنیا بھر کے بدلتے ہوئے حالات اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھ کر اپنے وقت کو بہترین منصوبہ بندی پر صرف نہیں کریں گے تو یقیناً ملک کے تمام شعبے انرجی کرائسز کی طرح مسائل کا شکار ہو جائیں گے، لہٰذا اسی طرح پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے زیرانتظام ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹوٹ برج اٹاری میں مصنوعی نسل کشی کورس کا انعقاد کیا گیا ہے،جس میں فارغ التحصیل طلباءکو روزگار کے بہتر مواقع میسر ہیں۔
 ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ٹاﺅن شپ میں ریڈکاﺅمیٹ کے تعاون سے Butcherٹریڈ کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ ٹریڈ اس حساب سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں داخلہ لینے والے اور کورس کے فارغ التحصیل طلباءو طالبات نسبتاً پڑھے لکھے لوگ ہیں، اب قصاب کا پیشہ کم پڑھے لکھے اور غیر ہندمند افراد کے ہاتھوں سے نکل کر پڑے لکھے اور ہنرمند افراد کے ہاتھوں میں آ گیاہے،جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جانور کے مذبحہ،گوشت کی کٹائی اور جانوروں کی افزائش تمام مراحل کی بہترین تربیت دی جاتی ہے۔
ڈیری فارم دیہی علاقوں میں قائم کئے گئے ہیں، تاکہ مویشیوں کو آسانی سے چارہ مہیا کیا جا سکے اور زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنایا جا سکے۔جیسا کہ دیہی علاقوں میں چارے کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔حال ہی میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں جانوروں کی ویکسی نیشن آسانی سے دستیاب ہے اور بکریوں اور بھیڑوں کی وائرل ویکسین آسانی سے دستیاب ہے۔پاکستان میں پولٹری کی فیڈ انڈسٹری بھی خاصی ترقی کر گئی ہے،تاہم مویشیوں کی خوراک کی صنعت اب emergingمرحلے میں ہے،جبکہ ملک میں 22کیٹل فیڈپروڈکشن یونٹ کام کررہے ہیں،لیکن مجموعی ضرورت کا 5فیصدسے بھی کم حصہ پورا کرپاتے ہیں۔ڈیری انڈسٹری بنیادی طور پر UHTدودھ پر انحصار کرتی ہے،جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ UHTدودھ کی مارکیٹ کو بڑھایا جائے اور مزید پروڈکٹس مارکیٹ میں لائی جائیں۔
موجودہ حکومت کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ وہ ڈیری ڈویلپمنٹ اور زرعی شعبے کی ترقی کے لئے خاصی سنجیدہ ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ وژن ہے کہ پاکستان خصوصاً پنجاب کو ڈیری ، زرعی اور پولٹری کی پراڈکٹس میں دنیا کے صف اول کے ملکوں میں شامل کیا جائے گا۔بھینس،بھیڑ، بکری اور مرغی کے گوشت کی رسد کو طلب کے برابر لانے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جانوروں کو خوراک کے ذریعے فربہ کیا جائے، تاکہ گوشت کی منڈی کو مزید پھیلایا جا سکے۔ماضی میں گوشت کی قیمتیں کم تھیں اور فربہی بھی منافع کے حصول میں اپنا کردارادا نہ کر سکی۔
جیسا کہ حکومت پنجاب کا وژن ہے کہ لوگوں کو تربیت مہیا اکرکے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق مذبحہ پولٹری سے منسلک لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔موجودہ زمانے میں ریفریجریشن کی آﺅٹ لٹ پر سہولتیں مرغی کے گوشت کی فروزن اور چلڈ دستیابی آسان ہوتی جارہی ہے۔پولٹری کے دو پروسیسنگ یونٹ پہلے ہی کام کررہے ہیں۔آج کل صارف فروزن/چلڈپولٹری کے ساتھ ساتھ گوشت کے مختلف حصہ جات کی علیحدہ علیحدہ طلب بھی ہے۔
موجودہ تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کوئی تربیت حاصل کرکے سوجھ بوجھ کے ساتھ پولٹری کے کاروبار میں پیسہ لگائے تو یہ ایک طرح سے منافع بخش سرمایہ کاری ہے۔جب کوئی انڈسٹری بھی بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے اور اس میں نئے رجحانات اور تجربات کو متعارف کروایا جاتا ہے تو جہاں پاکستان میں لائیوسٹاک اور پولٹری انڈسٹری خاصی بڑے سائز کی ہے، لہٰذا اس کے ساتھ ویٹرنری فارماسیوٹیکل کی بھی بہت گنجائش ہے، اس کے علاوہ اس صنعت کی بھی کافی کھپت نکلی ہے۔اس طرح لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ،جس کی ابتداءلاہور سے ہوئی۔اس سلسلے میں پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل نے وزیراعلیٰ پنجاب کے ویژن اور ہدایات کی روشنی میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ برج اٹاری، دیپالپور، سکھیکی میں ویٹرنری اسسٹنٹ کے کورسز شروع کئے ہیں، جس میں مصنوعی نسل کشی کو بطور خاص کورس کا حصہ بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ پنواں ضلع ننکانہ صاحب میں ٹنل فارمنگ کا کورس شروع کیا گیا ہے۔اس ٹریڈ میں مشاورت فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے ساتھ ہے۔ان تمام کورسز کا انتخاب علاقے کی ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے، تاکہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے اور اس کو ممکنہ حد تک منافع بخش بنایا جا سکے۔
پاکستان جیسے کثیر آبادی کے ملک میں یہ سوچ بہت اہمیت کی حامل ہے کہ غذائی فصلوں ڈیری فارم اور پولٹری جیسے شعبوں کو مزید توجہ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، اس طرح عوام اگر نہ صرف حکومتی اقدامات پر نظر رکھیں، بلکہ کوشش کریں کہ خود بھی اپنے طور پر رضاکارانہ طور پر اس میں حصہ لیں اور جیسا کہ دنیا بھر میں کچن گارڈننگ کا رجحان ہے۔کچن گارڈننگ اور زمین کے ٹکڑوں میں سبزیاں اگا کر خود کفیل ہو سکتے ہیں۔مہنگی سبزیوں کے عذاب سے بھی رہائی مل سکتی ہے۔سبزیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پیمکو نے گھریلو سطح پر سبزیوں کی کاشت کو فروغ دینے کے لئے کچن گارڈننگ کا جامع منصوبہ بنایا ہے۔اس کا بنیادی مقصد گھریلو سطح پر سبزیوں کی کاشت کی فروغ دینا کہ مندرجہ ذیل فائدے حاصل کئے جا سکیں، مثلاً حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق کیمیائی کھادوں اور ادویات کے مضر اثرات سے پاک غذائیت سے بھرپور تازہ سبزیاں،خواتین و حضرات کے لئے مفید مشغلہ اور وقت کا درست استعمال، خوراک کے بحران پر قابو پانے کا بہترین ذریعہ۔اس میں تقریباً پانچ گنا معاشی فائدہ ہے، لیکن اس میں زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات کی مفت ٹریننگ کے ساتھ ساتھ پانچ مرلہ تک سبزیوں کے بیج کی مفت فراہمی بھی حکومت نے ممکن بنائی ہے، اسی طرح اگر گھریلو پیمانے پر 6x8کی پلاسٹک ٹنل بنائی جائے تو کل لاگت کا پچاس فیصد حصہ پیمکو ادا کرتا ہے، اگر عوام جانفشانی اور خلوص سے پاکستان کی غذائی ضروریات کو ملکی وسائل سے چاہیں تو پاکستان کو کم از کم پیاز،آلو اور ٹماٹر تو ہمسایہ ممالک سے منگوانے نہیں پڑیںگے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پنجاب گورنمنٹ کے منصوبے کے مطابق عوام الناس میں ان رجحانات کو فروغ دیں، تاکہ ہمارا ملک زرعی اور غذائی خودکفالت حاصل کر سکے۔      ٭

مزید :

کالم -