نوازشریف کا ”کلہ“ مضبوط ہے؟
تاریخ کس طرح خود کو دہراتی ہے، اس کی مثال آج کی صورت حال اور 28برس قبل 1986ءکی سیاسی صورت حال تقریباً ایک جیسی دکھائی دیتی ہے۔فرق صرف اس قدر ہے کہ صرف ایک کردار اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔غیر سیاسی انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت میں محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے اور میاں نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ، صدر کا عہدہ جنرل ضیاءالحق کے پاس تھا۔چودھری پرویز الٰہی صوبائی کابینہ میں بلدیات کے وزیر تھے اور کافی موثر و مضبوط وزیر تھے، کیونکہ ان تمام ضلع کونسلوں پر ان کا کنٹرول تھا جو صوبائی اسمبلی کے ارکان چلا رہے تھے یا جن پر ایسے چیئرمین تھے، جو ان ارکان اسمبلی کے عزیز اور رشتہ دار تھے۔اندر ہی اندر ایک ایسی ”کھیر“ پکائی جا رہی تھی ،جس کا مقصد میاں نوازشریف کے خلاف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانا تھا۔چودھری سردار محمد ان دنوں صوبائی سپیشل برانچ یعنی سی آئی ڈی کے محکمہ کے سربراہ تھے اورمیاں نوازشریف کے تھنک ٹینک میں شامل ہونے کی بدولت ان کے دست راست تھے۔
صورت حال کافی پریشان کن تھی اور چودھری پرویز الٰہی گاہے بگاہے صدر جنرل ضیاءالحق اور وزیراعظم جونیجو کو اپنی ظہور الٰہی روڈ والی کوٹھی پر مدعو کرکے دعوتیں دے رہے تھے،جبکہ صدر کی بیگم شفیقہ صاحبہ کو زروجواہرات کے تحفے تحائف بھی دیئے جا رہے تھے۔گویا اس قسم کا تاثر پیدا کیا جا رہا تھا،جس سے مراد یہ تھی کہ ارکان صوبائی اسمبلی کو باور کرایا جائے کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو بھی ان کے ساتھ ہیں اور ضیاءالحق بھی اپنا وزن اس کھیل میں چودھری صاحب کے پلڑے میں ہی ڈالیں گے۔ہر آئے دن وزیر بلدیات کسی نہ کسی ڈویژن کے ارکان صوبائی اسمبلی کو اپنے گھر دعوت پر بلاتے،کھانا کھلاتے اور پھر حرف مدعا بھی زبان پر لا کر وعدے وعید حاصل کرتے۔چودھری سردار محمد نے بھی بعض ارکان اسمبلی کی یہ ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ وہ اس سارے ڈرامہ کی سین بندی کی خبریں لمحہ بہ لمحہ ان تک پہنچائیں۔ میڈیا کے بھی بعض قریبی دوستوں سے مدد لی جا رہی تھی اور انہیں منت سماجت کرکے کہا جا رہا تھا کہ وہ دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے وقت باقاعدگی سے چودھری پرویز الٰہی کی کوٹھی کا طواف کرتے رہیں۔غرض ایک جانب محمد خان جونیجو اسلام آباد میں اپنے وزیراعظم ہاﺅس میں چیدہ چیدہ ارکان پنجاب اسمبلی کو دعوتیں کھلا رہے تھے اور دوسری طرف ظہور الٰہی پیلس گجرات اور لاہور میں پرویز الٰہی کا گھر ایسے ہی مراکز تھے، جہاں خاموشی کے ساتھ یہ کام جاری تھا۔
کھیل کو ابھی دو تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک روز چودھری سردار محمد میرے دفتر ایبٹ روڈ پر آئے۔مَیں ابھی محکمہ تعلقات عامہ کا سربراہ تعینات نہیں ہوا تھا، لیکن میڈیا کے تمام کاموں کی دیکھ بھال میرے سپرد تھی۔چودھری صاحب نے مختصر الفاظ میں اس سارے ڈرامہ کی تفصیل بیان کی اور کہا کہ کوئی صدر ضیاءالحق کے بارے میں تو یہ معلوم کرکے آئے کہ آخر اس گیم میں وہ پرویز الٰہی کے ساتھ ہیں یا میاں نوازشریف کے ساتھ ہیں، چنانچہ طے ہوا کہ اب صدر جنرل ضیاءالحق جب لاہور کے دورہ پر آئیں تو مَیں اپنے ہمراہ تین چار ایسے اخبار نویسوں کو ائرپورٹ پر لے جاﺅں جو ان کے آنے یا واپس جانے کے وقت صدر ضیاءالحق سے یہ سوال کریں کہ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہو تو وہ کس کے ساتھ نہیں؟ ائرپورٹ پر پروٹوکول کی ذمہ داری چونکہ ہمارے ہی محکمہ کے پاس تھی اس لئے ہمارے لئے ایسا کرنا نسبتاً آسان تھا، لیکن میڈیا والوں کو عموماً وفاقی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ ہی وہاں لے جاتا تھا، لہٰذا مَیں جن دو تین دوستوں کو ساتھ لے گیا، انہیں آسانی کے ساتھ اس پریس ٹیم میں بٹھا دیا گیا،جو صدر صاحب کے دورہ لاہور سے واپسی کے وقت وہاں موجودتھی۔
ضیاءالحق جب واپس جانے لگے تو پریس سے مختصر سلام دعا ہوئی، جس میں ہمارے دوستوں نے ان سے سوال کیا کہ جناب صدر میاں نوازشریف کے خلاف اگر اسمبلی کے اندر کوئی تحریک پیش ہوئی تو آپ کس کے ساتھ ہیں۔وہ مسکرائے، کچھ سوچا اور ہاتھ ہلا کر سب کو خدا حافظ کہنے کے بعد بولے کہ فکر نہ کریں۔نوازشریف کا ”کلہ“ مضبوط ہے۔ وہ تو اتنا کہہ کر جہاز میں سوار ہو کر اسلام آباد چلے گئے، لیکن یہ ساری کی ساری تحریک جو اندر ہی اندر ابھی ”پک“ رہی تھی، ٹھس ہو کر رہ گئی۔تمام اخبارات نے شہ سرخی میں ”نوازشریف کا کلہ مضبوط ہے“ کے عنوان سے خبریں شائع کیں اور یوں جو ارکان صوبائی اسمبلی اپنی گاڑیاں نکال نکال کر چودھری پرویز الٰہی کو سلام کرنے ان کی کوٹھی پر رش لگائے رکھتے تھے۔دم دبا کر اپنے ”بلوں“ میں جا چھپے۔کوئی اپنے گاﺅں چلا گیا تو کسی نے بیماری کا بہانہ بنا کر دوچار روز کی چھٹی لے لی۔میاں نوازشریف نے بھی اگلے ہی روز اسمبلی میں ارکان کے ہاتھ کھڑے کروا کر ایک بار پھر ان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا اور یہ خطرہ پھر آنے والے تمام وقتوں کے لئے ٹل گیا۔یوں یہ میاں نوازشریف اور چودھری خاندان کے مابین تعلقات کی خرابی کے سلسلہ میں ایک ایسی پیش رفت تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی رہی۔
میاں نوازشریف جب 1990ءاور 1997ءمیں وزیراعظم بھی بنے تو انہوں نے وزارت داخلہ کا قلم دان چودھری شجاعت حسین کو دیئے رکھا، لیکن جو مثالی تعلقات ان دونوں خاندانوں کے مابین 1985ئ۔ 1986ءسے پہلے تھے، ویسے تعلقات پھر قائم نہ ہو سکے۔ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب میں سپیکرشپ کا عہدہ بھی ملا، لیکن اختیارات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہی رہے۔جنرل ضیاءالحق نے تو آگے چل کر اپنے حادثہ والے سال لاہورکے منشی ہسپتال میں تقریر کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو گلے لگایا اور بڑے پُرجوش انداز میں کہا کہ اللہ میری زندگی بھی نوازشریف کو لگا دے۔میڈیا والوں نے ان کے اس بیان کو بھی لیڈسٹوری بنایا۔ اس پر کافی دیر تک ضیاءالحق کے دونوں صاحبزادے اعجازالحق اور انوار الحق ان سے روٹھے رہے اور اماں جی سے بھی اپنے والد کی شکائت کی، لیکن فوج کا زمانہ تھا۔جنرل وردی میں ہی ملک کا صدر تھا اور محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد بھی نئے انتخابات کی تاریخ دینے کے لئے ہرگزراضی نہ تھا۔نہ تو کسی سیاسی پارٹی میں یہ جرات تھی کہ وہ ضیاءالحق کو الیکشن کے لئے للکارے۔نہ ہی کسی دینی جماعت میں اتنا وزن تھا کہ وہ کوئی لانگ مارچ کرے یا دھرنا دے سکے۔یہ جو آج جمہوریت کے ”مامے“ بنے ہوئے ہیں۔ان سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
آج پھر وہی نوازشریف ہے اور اندر ہی اندر دکھائی نہ دینے والی ویسی ہی سازشیں کی جا رہی ہیں جو 28برس قبل بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان کے خلاف کی گئی تھیں، لیکن اب کسی ضیاءالحق کا ہاتھ ان کے سر پر نہیں، بلکہ اگر کسی طاقت پر انہیں بھروسہ اور ایمان ہے تووہ خدائے بزرگ و برتر کی طاقت ہے اور دوسری طاقت ان کے وہ اعتماد کے ووٹ میں جو پارلیمنٹ نے انہیں ایوان میں دیئے۔موجودہ جمہوری اور آئینی نظام میں یہ طاقت اس جرنیل کے کندھے کے سہارے سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔یہ سسٹم جوں جوں مضبوط ہوگا، اسی طرح کے خطرات کا مقابلہ کرکے ہی مضبوط ہوگا۔فرانس یا انگلینڈ میں جمہوریت دس بیس یا پچاس برسوں کے تجربات سے مضبوط نہیں ہوئی، بلکہ اسے دو سو برس سے بھی زائد کا عرصہ لگا ہے۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ جہاں جہاں اس نظام کو چلانے میں صوبوں کی سطح پر یا مرکز کی سطح پر خرابیاں سامنے آئی ہیں، انہیں دور کرنے کی ایسی کوششیں کی جائیں جو میڈیا کو بھی دکھائی دیں، تاکہ عوام تک انہیں پہنچایا جا سکے۔ اس طرح ماڈل ٹاﺅن میں جو 14یا 15لوگ پولیس کی گولیوں سے مرے ہیں، ان کے بال بچوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے، کیونکہ بھری سڑک پر امریکہ کے صدر کینڈی کو جس شخص نے کئی منزلہ اونچی عمارت سے نشانہ لگاکر گولی ماری تھی، اس کا باپ بھی ایک ایسے ہی جلسہ میں مارا گیا تھا، جس کی صدارت ایک کاﺅنٹی میں کینڈی ہی کر رہا تھا۔کینڈی اس وقت کاﺅنٹی کا الیکشن لڑ رہا تھا۔کسے معلوم کہ آج جو بچے پولیس کی گولیوں کے نتیجہ میں یتیم ہوئے ہیں، انہیں اگر پیار نہ دیا گیا۔دیکھ بھال نہ کی گئی تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے دس بیس برسوں میں ان میں سے بھی کوئی بڑا ہو کر شریف خاندان کے کسی فرد سے بدلہ لینے کی کوشش نہ کر بیٹھے۔اس کا تدارک بھی ایسے کریں کہ دکھائی دے۔میڈیا پر توجہ کی زیادہ ضرورت ہے۔یہی میڈیا آپ کو لایا تھا، آخر یہی اب آپ کو کیوں بند گلی میں لے جا رہا ہے۔ ٭