بچوں کا دادا کے پاس رہنا حبس بے جا نہیں ،ہائی کورٹ کے فیصلے پر ماﺅں کے بین
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس سردار احمد نعیم نے بچوں کی بازیابی کے لئے دائر حبس بے جا کے دو الگ الگ مقدمات میں قرار دیا ہے کہ باپ کی عدم موجودگی میں دادا کے پاس بچوں کا رہنا حبس بے جا نہیں ہے ۔حبس بے جا کی ایسی درخواستیں قابل سماعت ہیں اور نہ ہی عدالت کی طرف سے ان پر کوئی حکم جاری کرنا مناسب ہے ۔بچوں کی تحویل کے لئے متعلقہ عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے ۔فاضل جج نے دونوں مقدمات میں خواتین کی طرف سے دائر کی جانے والی حبس بے جا کی درخواستیں خارج کردیں اور بچوں کو واپس ان کے داداﺅں کی تحویل میں دے دیا۔پہلے کیس میں عدالت نے بچے کرن نامی خاتون کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو خاتون نے کمرہ عدالت سے نکل کر بین کرنا شروع کردیا۔جیسے ہی عدالت نے بچوں کو داد کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تو بچوں کی ماں غم سے نڈھال ہوگئی جبکہ بچوں کی نانی نے چیختے ہوئے اپنا سر پیٹنا شروع کردیا۔ عدالت کے روبرو کرن نامی خاتون نے موقف اختیارکیا کہ اسکا خاوند ڈکیتی کے مقدمے میں گذشتہ تین سالوں سے کشمیر کی جیل میں قید ہے۔وہ اپنے سسرال کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی لہذا اسکے دونوں بچوں کو اسکے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔کمرہ عدالت میں موجود بچوںمحسن اور علی نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،انہیں اپنی والدہ کے ہمراہ جانے کی اجازت دی جائے۔دادا نے عدالت میں موقف اختیارکیا کہ ان کی علیحدگی کے بعد وہ بچوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ہم اپنی بہو اور بچوں کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اس طرح بچوں کا اور ان کا خرچہ چلتا رہے گا۔ عدالت نے دونوںکا موقف سننے کے بعد درخواست نمٹا دی ۔دوسرے مقدمہ میں فاضل جج نے رضوانہ نامی خاتون کی درخواست پر بچے اس کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو بچوں کی ماں نے رونا شروع کردیا اور احاطہ ہائیکورٹ میں بے ہوش ہوگئی ۔ ماں ہوش میں آنے پر بچوں کو پکارتی رہی۔رضوانہ نامی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ اسکا خاوند لیاقت گزشتہ ایک سال سے دبئی میں مقیم ہے اور خاوند نے اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے گھر سے نکال دیا ہے۔ خاتون نے عدالت سے استدعا کی کہ اسکے پانچ بچوں کو سسرال سے بازیاب کرا کے اسکے حوالے کیا جائے۔ عدالت میں موجود خاتون کے بچوں احمد علی،مزمل علی،داﺅد،آمنہ اور مریم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔تاہم عدالت نے بچوں کو کمرہ عدالت میں موجود ان کے دادا کے حوالے کر دیا۔عدالتی فیصلہ سنتے ہی کمرہ عدالت میں موجود بچوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور اپنی ماں کے ساتھ جانے کے لئے بھاگے تاہم پولیس نے بچوں کو پکڑ کر ان کے دادا کے ساتھ جانے پر مجبور کیا۔