وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر53

Aug 28, 2017 | 12:39 PM

شاہد نذیر چودھری

جلال کی موت بڑے پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔ پہلوانوں کی زندگیاں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جنہیں انسان فہم و شعور سے بالا سمجھتا ہے۔ مگر جب موت آتی ہے تو ایسے پراسرار اور غیر منطقی غیر فطری حالات پر بھی اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ پھر جب ایسے واقعات کی چشم دید گواہیاں متعدد ہوں تو ان کی صحت کو جھٹلانا عبث ہوتا ہے۔
گاماں پہلوان کو مہاراجہ پٹیالہ نے اپنے ہاں رہائش کیلئے وسیع و عریض اور عالی شان محل نما حویلی دی ہوئی تھی جس میں پھولوں اور پھلوں سے بھرا ایک باغ بھی تھا۔ اس حویلی میں گاماں کے ہاں ہر سال اننت ناگ کشمیر سے ایک ہندو جوگی باوا آیا کرتا تھا۔ پٹیالے میں جوگی باوا کی بڑی دھوم تھی اور بے حد احترام تھا۔ وہ جب بھی آتا صرف گاماں پہلوان کے باغ میں قیام کرتا۔ ریاست کے امراء اور خود مہاراجہ بھی جوگی باوا کے درشنوں کو ترستے رہتے مگر جوگی باوا گاماں کے ہاں آ کر پھر کسی اور طرف جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔جوگی کو گاماں سے غایت درجہ محبت اور عشق تھا۔ جلال سے تو جوگی باوا کھیلتا کودتا بھی تھا اور گھنٹوں باتیں کرتا رہتا تھا۔ ایک بار جب جلال نے جوگی باوا سے پوچھا۔ ’’بابا جی! آپ کو ہمارے بابا جی (گاماں پہلوان کو سب پیار سے بابا جی کہتے تھے) سے بہت پیار ہے؟‘‘

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر52  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جوگی باوا جلال کے سوال پر سرشاری سے بولا۔ ’’ہاں جلال بیٹے ہمیں سارے سنسار میں سے کسی سے لگاؤ ہے تو وہ تمہارا بابا جی ہے یا ایک تم ہو۔‘‘
’’باوا جی، لوگ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے ہاں کیوں آتے ہیں۔مہاراجہ حضور کے محل میں کیوں نہیں جاتے‘‘۔ جلال نے معصوم سوال کیا۔
’’آہ‘‘ جوگی باوا نے مسرت سے کہا۔ ’’سنسار والوں کو کیا معلوم گاماں کیا چیز ہے اور ہم یہاں ہی کیوں ڈیرے لگاتے ہیں۔ جلال پتری! گاماں پر اوپر والے کے بڑے کرم ہیں اور ہم صرف ان کرموں کے پھل کو دیکھتے آتے ہیں‘‘۔
جوگی یونہی سال بھر بعد پٹیالے کا پھیرا لگاتا تھا مگر 1945ء کے قریب جب وہ آیا تو دو ببر شیر اس کے ہمراہ تھے۔پٹیالے میں تو خوف و ہراس پھیل گیا۔ گاماں پہلوان کو خبر ہوئی تو اس نے بازپرس کرنے کی بجائے جھٹ سے حویلی کے دو کمرے خالی کرا دئیے اور جوگی باوا کے تصرف میں دے دئیے۔ جوگی باوا نے اپنے شیروں کیلئے دو بڑے پلنگ بچھوائے اور ان پر شیروں کو سلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب گاماں جوگی باوا کے درشن کرنے پہنچا تو جوگی باوا نے آگے بڑھ کر سواگت کیا۔ اس نے چارپائی پر محو استراحت شیروں کو ڈانٹ کر کہا۔
’’اوئے کم بختو! ابھی تم سوئے پڑے ہو۔دیکھتے نہیں تمہارا سردار آیا ہے۔ اٹھو اور اپنے آقا کا سواگت کرو اور چرن چھوؤ۔‘‘
شیروں نے حیران کن حد تک تابعداری کی اور باوا جی کے حکم پر بستر چھوڑ کر گاماں جی کے قدموں میں لوٹنے لگے۔ جوگی باوا نے گاماں جی سے کہا۔
’’میرے آقا چارپائی پر تشریف رکھیں‘‘۔
’’باوا جی کیوں شرمسار کرتے ہیں۔ آپ تشریف رکھیں‘‘۔
’’گاماں جی آپ تو اونچی شے ہیں۔بھلا ہم آپ کے برابر بیٹھ سکتے ہیں۔ ہماری جگہ تو آپ کے چرنوں میں ہے‘‘۔
گاماں پہلوان چارپائی پر بیٹھا تو شیر اس کے تلوؤں کو چاٹنے لگے۔
گاماں جی کہا کرتے تھے کہ ان شیروں کی زبان اتنی کھردری ہوتی تھی کہ یوں لگتا تھا جیسے تلوؤں کی کھال ادھڑ رہی ہے۔
گاماں اور جوگی باوا آپس میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے اور شیر ان کے قدموں میں کسی مرید کی طرح سر جھکائے رہتے۔
اس بار جلال باوا کے پاس جانے سے منع کر دیا گیا۔ وہ جوگی باوا سے ملنے کو بے کل تھا مگر بیگم گاماں شیروں کی موجودگی میں جلال کو جانے نہیں دے رہی تھیں۔ جوگی باوا نے بھی عجیب فرمائش کی تھی۔ وہ جلال کی تصویر اپنے شیروں کے ساتھ اتروانا چاہتا تھا۔ جوگی باوا نے بیگم گاماں کو یقین دلایا کہ شیر جلال کو کچھ نہیں کہیں گے مگر وہ پھر بھی نہ مانیں۔بالاخر گاماں جی کے کہنے پر جلال اور جوگی باوا نے اکٹھے تصویر بنوائی۔
ایک روز جوگی باوا گاماں پہلوان کی عدم موجودگی میں پٹیالہ آ گیا۔ گاماں کار سرکار کے لئے دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ اس بار باوا جوگی کی آمد غیر متوقع تھی۔ یہ اس کا سال میں دوسرا چکر تھا۔ جوگی باوا نے جلال کو بلایا اور اسے پیار کیا پھر اپنی کٹیا میں چلا گیا۔ یہ کٹیا اس باغ میں بنے اکھاڑے کے پاس تھی جہاں وہ بیٹھ کر اکھاڑے میں پہلوانوں کو زور کرتے دیکھتا رہتا تھا۔ اس روز جوگی باوا نہایت مغموم تھا۔اس نے دوبارہ جلال کو بلایا اور دس روپے کا نوٹ اسے تھما کر کہا۔
’’لو جلال بیٹا ہم تو چلے۔ تمہارا بابا جی آئے تو کہہ دینا اب ہم نہ آئیں گے‘‘۔
’’باوا جی آپ نہیں جائیں گے‘‘۔ جلال نے ضد کی۔ ’’بابا جی غصے ہوں گے‘‘۔
’’پتر بلاوا آ گیا ہے اور اب ہمیں جانا ہے‘‘۔ جوگی باوا کسی اندرونی کش مکش میں گرفتار ہو گیا اور اس کی آواز بھرا گئی۔ ’’جلال پتری! ہمیں معاف کر دینا۔ ہم تیرے لئے کچھ نہ کر سکے‘‘۔
جلال حیران و پریشان جوگی باوا کی مبہم باتوں میں الجھ گیا۔ تیرہ سالہ جلال ذہین، فطین بچہ تھا البتہ اس نے جوگی باوا کی افسردگی سے اندازہ لگا لیا کہ جوگی باوا کو کوئی گہرا صدمہ ہے۔ اس نے دس روپے لئے اور اندر حویلی میں چلا گیا۔ شام کو جب گاماں پہلوان واپس آیا تو جوگی باوا جا چکا تھا۔اسے جوگی باوا کی آمد اور جلال سے ہونیوالی گفتگو سنائی گئی تو گاماں جیسا کوہ گراں اندیشوں میں گرفتار ہو گیا۔
’’تم نے باوا جی کو جانے کیوں دیا‘‘۔ گاماں نے جلال سے کہا۔ ’’اور پھر بیٹا تم نے باوا جی سے دس روپے بھی لے لئے ہیں‘‘۔
’’میں کیا کرتا وہ تو جانے پر بضد تھے‘‘۔ جلال نے کہا۔ ’’روپے نہ لیتا تو وہ ناراض ہو جاتے‘‘۔
گاماں پہلوان جوگی باوا کی بات کی باریکیوں میں کھویا رہا۔ اگلے دن معلوم ہوا کہ جلال کو بخار نے آ لیا ہے۔ جلال کا بدن بخار سے ٹوٹنے لگا۔ گاماں اور اہل خانہ فکر و اندوہ میں ڈوب گئے۔ حکماء کو بلایا گیا اور طبیبوں نے جلال کی چارپائی پر پہرے بٹھا دئیے۔ چاروں پہر دو تین حکیم اور ڈاکٹر وہاں موجود تھے مگر جلال کو زندگی دغا دے گئی اور وہ دم توڑ گیا۔
جلال کی موت کا صدمہ اتنا بھاری تھا کہ گاماں اس کے بوجھ تلے دب گیا۔ ہر وقت زار و قطار روتا اور اپنے پروردگار کے حضور سربسجود رہتا۔ امام بخش سے اپنے بھائی کا یہ دکھ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔اس نے اچھا پہلوان کو ساتھ لیا اور اپنے بھائی گاماں کے پاس لے آیا۔ گاماں امام بخش اور اچھا پہلوان پہلوان کو ساتھ لپٹا کر خوب رویا۔ اولاد کا دکھ ہی ایسا ہوتا ہے کہ مضبوط سے مضبوط تر انسان کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
’’بھا جی! آپ کے سارے دکھ میرے ہیں۔ اللہ کو جو منظور تھا اور جو اس کی مرضی تھی اس نے ویسا ہی کرنا ہے۔ جلال اس کی امانت تھا۔اس نے اپنی امانت واپس لے لی ہے۔اب صبر کے سوا کیا چارہ ہے‘‘۔
’’صبر کہاں سے ملتا ہے میرے بھائی۔ مجھے بتاؤ کہاں سے لاؤں صبر۔‘‘ گاماں رو رہا تھا اور امام بخش پہلوان کے دل پر آڑے چل رہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا بھائی کی آنکھ سے بہتے آنسوؤں کے قطرے اس کے اپنے خون جگر کی مانند ہیں۔ وہ خود بھی زار و قطار رو دیا۔ اسی لمحے امام بخش نے اچھا پہلوان کو گاماں کے قدموں میں بٹھا دیا اور کہا۔
’’بھا جی! اپنا اچھا جلال تو نہیں مگر یہ جلال کی کمی ضرور پوری کرے گا۔ آج سے یہ آپ کا ہوا۔ مجھ پر اس کے تمام حقوق حرام ہوئے‘‘۔
گاماں نے پرنم آنکھوں سے بھائی کو دیکھا اور خاموش ہو گیا پھر کہا۔ ’’امام بخش یار!
اچھا کیا بھولو، اکی، گوگا، راجہ سبھی تو میرے ہیں‘‘۔
’’ہاں بھا جی! سبھی آپ کے ہیں‘‘۔
دونوں بھائی کافی دیر تک دکھوں کا کتھارسس کرتے رہے۔ گاماں نے اچھا پہلوان کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا۔ اچھا پہلوان نے ایک موذب اور تابعدار فرزند کی طرح گاماں پہلوان کو اپنی محبت دی اور جلال کی جدائی کے زخم کو بھلانے میں مدد دی۔ پھر گاماں پہلوان اچھا پہلوان کی ریاضت و تیاری میں مشغول ہو گیا اور چند ہی ماہ بعد وہی اچھا جو حمیدا پہلوان، گاماں کلووالا جیسے مہاوتوں کے زیر دست تھا اب نئی شان سے افق شاہ زوری پر طلوع ہو رہا تھا۔گو کہ یہ وہ کئی میدان مار چکا تھا مگر اب اس کی جوڑیں بڑی سطح کے میدانوں سے باندھی جا رہی تھیں۔ (جاری ہے)

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں